مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حالیہ دنوں میں یوکرین جنگ سے متعلق مغربی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں، جن کا مرکزی نکتہ مستقبل کے یوکرین کے لیے ایک نئے قائد کی تلاش ہے۔ اگرچہ ولودیمیر زیلنسکی تاحال یوکرین کے صدر کے طور پر برسر اقتدار ہیں، تاہم متعدد مغربی، روسی اور حتی کہ غیر جانب دار ذرائع کے مطابق، امریکہ اور برطانیہ غیررسمی طور پر زیلنسکی کو ہٹا کر ان کی جگہ یوکرینی فوج کے تجربہ کار اور مقبول جنرل والری زالوژنی کو لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جنگی میدان میں یوکرین کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی اور کیف کے اندرونی حلقوں میں سیاسی اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں۔ یہ تمام عوامل زیلنسکی کی سیاسی حیثیت کو کمزور اور مغرب کو قیادت میں تبدیلی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب نیٹو اور روس کے درمیان عسکری کشیدگی بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ امریکہ نے اپنے جوہری آبدوزوں کو شمالی یورپ کے پانیوں میں تعینات کردیا ہے، برطانیہ اور پولینڈ نے بیلاروس کی سرحد کے قریب مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں، جبکہ روس نے جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کی کھلی دھمکیاں دی ہیں۔
ان سیاسی و عسکری پیش رفتوں نے یہ اہم سوال جنم دیا ہے کہ آیا زیلنسکی کو ہٹا کر زالوژنی کو لانا صلح کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے یا یوکرین کو ایک نئی، زیادہ جارحانہ جنگی حکمت عملی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جنرل زالوژنی کی شخصیت اور ان کی فوجی حکمت عملی کو زیلنسکی کے طرزِ قیادت سے موازنہ کرنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا۔
زالوژنی بمقابلہ زیلنسکی: دو چہرے، دو راستے
جنرل زالوژنی اور صدر زلنسکی دونوں یوکرین کے بحران کے دو مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں:
ایک طرف زالوژنی، جو پیشہ ور عسکری پس منظر کا حامل، نظم و نسق اور ادارہ جاتی تفکر کا نمائندہ ہے؛
دوسری جانب زیلنسکی، جو ایک سابق اداکار اور مزاح نگار کے طور پر میڈیا میں مہارت اور عوامی جذبات کو ابھارنے کے ہنر سے لیس ہے۔
زیلنسکی 2019 کے انتخابات میں بدعنوانی مخالف نعروں اور عوامی اپیل کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ روس کے ساتھ جنگ کے آغاز پر وہ مزاحمت کی علامت بن گئے۔ ان کی طاقت فوجی ڈھانچے سے نہیں، بلکہ میڈیا پر گرفت، عوامی رائے کو متحرک کرنے اور بحرانی حالات میں قیادت کی صلاحیت سے آئی۔ خاص طور پر 2022 اور 2023 میں مغربی ممالک کے مسلسل دوروں اور سیاسی برانڈ سازی کی مہارت نے یوکرین کے لیے بے مثال عالمی حمایت حاصل کی۔
مگر یہی تصویر سازی کی حکمت عملی وقت کے ساتھ ان کی کمزوری بن گئی۔ 2023 کی گرمیوں میں فوجی پیش قدمی کی ناکامی اور عوام کی جانب سے ٹھوس نتائج کے مطالبے نے سیاسی نعروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی زیلنسکی اور فوجی قیادت خصوصا جنرل زالوژنی کے درمیان فاصلے نمایاں ہوگئے۔
دوسری طرف جنرل والری زالوژنی ایک غیر سیاسی اور غیر جماعتی شخص ہے، جو اقتدار کی کشمکش سے دور رہنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے یوکرینی فوج کو نیٹو کے طرز پر منظم کیا: فیلڈ میں تیزی، ٹیکنالوجی پر انحصار، مقامی کمانڈروں کو اختیار دینا اور انٹیلی جنس و آپریشنز میں ہم آہنگی وہ امور ہیں جن پر انہوں نے خصوصی توجہ دی۔
جہاں زیلنسکی نے مقبولیت سے اقتدار حاصل کیا، وہیں زالوژنی نے میدان جنگ میں کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا اعتماد حاصل کیا۔ بعض سروے رپورٹوں کے مطابق عوام کی زالوژنی پر اعتماد کی شرح 70 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جو زیلنسکی سے زیادہ ہے۔
ان دونوں کے درمیان ایک بڑا فرق جنگ کے مستقبل پر ان کا مؤقف بھی ہے۔ زیلنسکی اب بھی مکمل فتح، مقبوضہ علاقوں کی واپسی اور پوٹن سے مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہیں جبکہ زالوژنی فوجی وسائل کی کمی، افرادی قوت کی قلت اور جنگ کے تعطل کو تسلیم کرتے ہیں، اور بالواسطہ طور پر اسٹریٹجک نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے براہ راست مذاکرات کی وکالت نہیں کی مگر واضح کیا کہ صرف فوجی ذرائع سے فتح ممکن نہیں۔
یوں، ایک جانب میڈیا پر انحصار کرنے والی سیاسی قیادت ہے، تو دوسری جانب میدان جنگ میں حقیقت پسند فوجی رہنما۔ زیلنسکی کی حکمت عملی غیر ملکی حمایت پر مبنی مزاحمت ہے، جبکہ زالوژنی طاقت کے ساتھ تدبر کے قائل ہیں۔ وہ یا تو جنگ کا ایک عقل مند اور مؤثر حل نکال سکتے ہیں یا طاقت کا توازن بدلنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگی مرحلہ شروع کرسکتے ہیں۔
شک نہیں کہ مغرب ان دونوں راستوں کا تجزیہ کر رہا ہے۔ زالوژنی کو نمایاں کرنا کھیل کے اصولوں میں تبدیلی کی سنجیدہ علامت ہے۔
زالوژنی: امن کی تمہید یا فیصلہ کن جنگ کا سپہ سالار؟
یوکرین کی جنگ میں ایک نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب جنرل والری زالوژنی کی میڈیا اور سیاسی تجزیوں میں پرجوش واپسی نے مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس تبدیلی کے بارے میں دو اہم نکتہ نظر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں نقطے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد ہیں، لیکن دونوں کی بنیاد حقیقی شواہد پر ہے:
زالوژنی، امن کی طرف قدم
پہلا نظریہ یہ ہے کہ زالوژنی کی واپسی دراصل ایک نئے مذاکراتی دور کی تیاری ہے۔ وہ ایک حقیقت پسند، غیرسیاسی اور عوام میں مقبول شخصیت ہیں، جنہیں یوکرینی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ اس کے برعکس، صدر زیلنسکی کا طرز قیادت زیادہ تر میڈیا پر انحصار کرتا ہے اور بعض اوقات جذباتی انداز اختیار کرلیتا ہے۔
اس تجزیے کے مطابق، زالوژنی وہ کمانڈر ہیں جو خود میدان جنگ میں صف اول پر موجود رہے ہیں، اور یوکرین کی فوجی کمزوریوں اور حدود کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ایسے سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں عوام بھی قبول کرلیں۔ مغربی دنیا کے لیے زالوژنی ایک موزوں شخص ہیں جو جنگ کے فوجی مرحلے سے سیاسی مذاکرات تک منتقلی کی قیادت کرتے ہوئے ایسا معاہدہ ممکن بناسکتے ہیں جو عوام کو بھی قابل قبول لگے۔
زالوژنی، جنگ کا نیا مرحلہ
دوسری طرف ایک مختلف زاویہ نظر یہ ہے کہ زالوژنی کی واپسی کا مقصد امن نہیں بلکہ جنگ کو ایک نئے، زیادہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنا ہے۔ یہ تجزیہ زالوژنی کی عسکری مہارت اور جارحانہ مزاج پر زور دیتا ہے۔
یاد رہے، یہی وہ جنرل ہیں جنہوں نے ایک بکھری ہوئی، تھکی ماندہ فوج کو ازسر نو منظم کیا اور نیٹو کے طرز پر جدید حکمت عملی اور نظم و ضبط نافذ کیا۔ ایسے شخص کو دوبارہ منظر پر لانے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جنگ میں امید، توانائی اور حکمت عملی واپس لائی جارہی ہے۔ گویا میدان جنگ کو حتمی اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنے کی تیاری ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو اگر کبھی مذاکرات بھی ہونے ہیں، تو ان کی راہ توپوں کی گھن گرج سے ہوکر ہی گزرے گی۔
زالوژنی دونوں راستوں کا ممکنہ قائد
دونوں تجزیے دراصل مغرب کی ایک گہری اور لچک دار حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ زالوژنی کو نہ صرف امن کے لیے موزوں شخصیت سمجھا جا رہا ہے، بلکہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو وہ میدان جنگ کے لیے بھی موزوں ترین شخص ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ مغرب کے لیے ایک اسٹریٹجک کارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسا کارڈ جو وقت کے ساتھ اپنی شکل بدل سکتا ہے۔
زالوژنی کا انتخاب کسی اختتام کا اعلان نہیں، بلکہ طاقت کے کھیل میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ یہ مرحلہ کسی مذاکراتی میز پر ختم ہوگا یا میدان جنگ کی شدت میں اضافہ کرے گا۔
فیصلہ وقت کرے گا
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مغرب زالوژنی کو نمایاں کرکے کوئی ایک راستہ نہیں اپنا رہا بلکہ وہ دونوں ممکنہ راستوں کے لیے خود کو تیار کررہا ہے۔ زالوژنی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں جو موقع کے مطابق یا تو امن کے جنرل کا کردار ادا کر سکتے ہیں یا پھر فیصلہ کن معرکے کے قائد کا۔
اس سوال کا قطعی جواب کہ آیا زالوژنی امن کا پیغام ہیں یا جنگ کے نئے مرحلے کی طرف اشارہ، ان کے ماضی میں نہیں بلکہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں ہونے والے فیصلوں میں چھپا ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ زالوژنی کی واپسی کے ساتھ یوکرین کا مسئلہ اب ایک نہایت نازک، پیچیدہ اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جو نہ صرف کیف کا مستقبل بلکہ نیٹو، روس اور یورپ کے سرحدی ممالک کے مابین طاقت کے توازن کو بھی نئے سرے سے متعین کرسکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ