مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے جوہری توانائی کے استعمال کے بارے میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن جوہری توانائی ایران کا حق ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی شق 4 کے تحت مکمل حق حاصل ہے کہ وہ جوہری توانائی کو پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرے، اور ایران پرعزم ہے کہ وہ ہر حال میں اس حق کا دفاع کرے گا۔
ترجمان اسماعیل بقائی نے الجزیرہ انگلش کے ساتھ گفتگو میں ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا یہ دعوی کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، حقیقت سے دور ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایران نے اپنے یورینیم ذخائر کو بچایا ہے یا نہیں، تو انہوں نے اس سوال کو ثانوی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اصل توجہ اس غیرقانونی حملے کی مذمت پر ہونی چاہیے، نہ کہ اس کے تکنیکی اثرات پر۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد صرف بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی م کے ساتھ تعاون کی معطلی سے متعلق ہے۔ یہ معاہدے سے علیحدگی یا رکنیت ختم کرنے کی بات نہیں کرتی۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ قرارداد ایک بار پھر این پی ٹی کے دائرہ کار میں آتی ہے، کیونکہ اس میں ایران کے حقوق کی ضمانت کی بات کی گئی ہے۔
امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے تازہ بیان کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ دو تین ماہ کے دوران امریکی بیوروکریسی اور اداروں سے مختلف اور متضاد بیانات سنے ہیں۔ جب وہ سفارت کاری کی بات کر رہے تھے اور مسقط میں طے شدہ ملاقات سے صرف دو دن پہلے، انہوں نے اسرائیل کو ایران پر حملے کی اجازت دی۔ ایران اسرائیلی جارحیت کا نشانہ با۔ تو کیا اب ان پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ ان کے قول اور فعل میں واضح تضاد ہے۔ اب انہیں اس جارحیت کا جواب دینا ہوگا جو انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر میرے ملک کے خلاف کی۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے عوام چاہتے ہیں۔
باہمی تنازعات کو حل کرنے کے سفارت کاری اور مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ
امریکہ نے خود سفارت کاری کو تباہ کیا۔ ایران کے نقطۂ نظر سے، ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ سفارت کاری کبھی ختم نہیں ہوتی حتی کہ ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی، ہم مختلف فریقوں سے بات چیت کرتے رہے تاکہ جانیں بچائی جاسکیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فریق دوم ایک طرف بات چیت اور سفارت کاری کی بات کرتا ہے، اور دوسری طرف جارحانہ اقدامات کرتا ہے۔ یہی تضادات مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔
مذاکرات کی صورت میں ایران کی طرف سے شرائط کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس وقت، جب کہ اسرائیلی جارحیت ختم ہوئے صرف ایک دن ہوا ہے، ہم اپنی سلامتی اور اپنے عوام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، کیونکہ لوگ جو کچھ ہوا ہے اس پر شدید غصے میں ہیں۔ لہٰذا اس وقت، میرے خیال میں ان متضاد بیانات یا مذاکرات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، کیونکہ ہمیں پہلے یہ یقین دہانی حاصل کرنی ہے کہ آیا فریق دوم واقعی سفارت کاری کے بارے میں سنجیدہ ہے یا یہ سب صرف ایک اور چال ہے تاکہ ہمارے ملک اور خطے کے لیے مزید مسائل پیدا کیے جا سکیں۔
آپ کا تبصرہ