مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سیمینار کا آغاز تلاوت قران کریم سے کیا گیا جسے مولانا جواد رضوی نے انجام دیا، اس کے بعد شاعر اہل بیت (ع) مولانا ندیم سرسوی اور مولانا عرفان عالم پوری نے مقاومت، لبنان اور شہید حسن نصر اللہ اور بقیہ شہدائے مقاومت کے سلسلے میں اشعار پیش کئے اور خراج عقیدت پیش کیا۔
اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جامعۃ المصطفیٰ (ص) کے جانشین حجۃ الاسلام والمسلمین خالق پور نے سورہ ہود کی آیت "فاستقم کما امرت..." پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس آیت میں قیام اور استقامت کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوڑھا کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ استقامت کا مطلب اپنی شناخت اور پہچان کو مضبوطی سے باقی رکھنا ہے، آج کے دور میں انسانیت کی عزت و کرامت مغربی افکار اور الحادی نظریات کے زیر سایہ پامال ہو رہی ہے، اور اس کی بحالی کے لیے ہمیں اپنے دینی اور ملی تشخص کو محفوظ رکھنا ہوگا۔
حجت الاسلام خالق پور نے کہا کہ مغربی تہذیب نے انسانی قدروں کو تباہ کر دیا ہے، اور ہمیں اپنی قومی اور دینی شناخت کی حفاظت کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ دینی تشخص کا مطلب ہے کہ ہم اپنے مذہبی اقدار اور اصولوں کو برقرار رکھیں۔ آج کے دور میں ہمیں دینِ خدا اور شیاطین کے اصولوں کے درمیان معرکہ آرائی کا سامنا ہے، اور ہمیں اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری خود اٹھانی ہوگی۔
حجت الاسلام خالق پور نے شہداء مقاومت، خاص طور پر شہید سید حسن نصراللہ کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان شہداء کی قربانیوں نے نہ صرف اسلامی مزاحمت کو زندہ رکھا بلکہ ان کی شہادت نے دشمن کی شکست کو مزید تیز کر دیا ہے۔
سیمینار میں حجت الاسلام سید محمد عباس رضوی (مونس) نے بھی خطاب کیا اور سید حسن نصراللہ کو مکتب کربلا کا علمبردار قرار دیا، انہوں نے کہا کہ سید حسن نصراللہ کی استقامت اور ایمان کا سرچشمہ کربلا ہے، اور ان کی شہادت نے مزاحمتی تحریک کو مزید تقویت بخشی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں کی شہادت کے بعد ان کا مشن ختم ہو جائے گا، لیکن جیسا کہ امام حسینؑ کی شہادت نے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا کی، اسی طرح شہید حسن نصراللہ اور دیگر شہداء کی قربانیوں کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا اور ظالموں کی نابودی کو قریب کرے گا۔
آپ کا تبصرہ