مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک - نفیسہ عبداللہی: گزشتہ روز جدہ میں 7 اکتوبر کے آپریشن طوفان الاقصی کے بعد دوسری مرتبہ او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس ہوا تاکہ غزہ کے حوالے سے ایک عملی حل پر غور کیا جاسکے۔ تاہم اس تنظیم کے رکن ممالک کی بے عملی پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ یہ اہم ادارہ اب تک فلسطین کاز اور اس سرزمین کے دفاع کا فریضہ ادا نہیں کر سکا ہے۔
غزہ کے بچوں، خواتین اور نہتے عوام پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے بعد 18 اکتوبر کو ایران کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے وزرائے خارجہ کا ایک غیر معمولی اجلاس جدہ میں منعقد ہوا۔
اس کے علاوہ، اس سال 11 نومبر کو ریاض میں اسلامی اور عرب سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا جس میں غزہ کا محاصرہ توڑنے اور انسانی امداد کی ترسیل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے زور دیا کہ ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں جو قرارداد منظور کی گئی ہے، اس میں مضبوط متن کے باوجود بیک وقت کئی ایسی شقیں ہیں جن پر اسلامی جمہوریہ ایران کو تحفظات ہیں۔
ایرانی وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ملک کو خاص طور پر دو ریاستی حل، 1967 کی سرحدوں اور عرب امن منصوبے کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
اس کے علاوہ قرارداد میں موجود عرب گروپ کے اس موقف پر تحفظات ہیں کہ PLO فلسطینی قوم کی واحد قانونی نمائندہ ہے جب کہ اس کا خیال ہے کہ PLO سمیت تمام فلسطینی مزاحمتی گروہ فلسطینیوں کے نمائندے ہیں۔ قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض رجیم کے خلاف لڑے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنی تقدیر کا فیصلہ کرے۔
جدہ میں ایران کے وزیر خارجہ کی 5 تجاویز
ایرانی وزیر خارجہ نے جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پانچ اہم تجاویز پیش کیں:
جس میں "نسل کشی اور جنگی جرائم کا فوری خاتمہ"، "مستقل جنگ بندی"، "جنگ کا فوری خاتمہ" اور "غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا انخلا" اور "رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنا" شامل ہے۔
اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات
اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کے موقع پر امیر عبداللہیان نے سعودی عرب، آذربائیجان، ترکی، تاجکستان اور سیرالیون کے وزرائے خارجہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل "حسین ابراہیم طہ" سے ملاقات کی۔
ایران کا قرارداد کے حوالے سے دوبارہ تحفظات کا اظہار
او آئی سی کے جدہ اجلاس کے اختتام پر رکن ممالک کی جانب سے ایک قرارداد پاس کی گئی۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران نے قرارداد کے اجراء کے حوالے سے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ایران کی طرف سے مذکورہ قرارداد کی حمایت کسی بھی صورت میں صیہونی حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔
قرارداد میں فوری اور جامع جنگ بندی، صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت کو روکنے اور غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنے کے لیے محفوظ گزرگاہوں کے قیام جیسے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔
مزید برآں صیہونی حکومت کی جارحیت کی حمایت میں انسانی حقوق کے دعویداروں کے شرمناک اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، جنوبی افریقہ کے اقدام اور بین الاقوامی عدالت کے عارضی حکم نامے کا خیرمقدم کیا گیا۔
قرارداد میں صیہونی حکومت کے جرائم کے مقدمے کی پیروی اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کے لیے عدالتِ انصاف کا سیاسی، تکنیکی اور قانونی تعاون حاصل کرنے، بچوں کے حقوق کی بلیک لسٹ میں قابض حکومت کا نام شامل کرنے کی درخواست دینے، صیہونی حکومت کے جرائم کو دستاویزی شکل دینے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے قانونی اور میڈیا یونٹ کی تشکیل اور اسے فعال کرنے، قابض حکومت کو اسلحے اور گولہ بارود کی برآمد پر پابندی، تنظیم کے سیکرٹری جنرل کو سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے ساتھ بات چیت کرنے جیسے اہم ترین فیصلوں پر زور دیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ملک کے اصولی موقف پر تاکید کرتے ہوئے قرارداد کی بعض شقوں کے بارے میں اپنے تحفظات کے طور پر ایک سرکاری نوٹ میں درج ذیل نکات پیش کئے: اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات نے تمام فلسطینیوں کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی فیصلہ سازی کے عمل یا صیہونی حکومت کے جرائم سے نمٹنے کے سیاسی اور سفارتی اقدام میں تمام فلسطینی عوام اور گروہوں کی آراء اور امیدوں کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
ایران فلسطین میں پائیدار امن کے قیام کے لیے واحد موثر اور پرامن اقدام کے بارے میں اصولی موقف اور اقوام متحدہ میں ایران کی طرف سے تمام فلسطینیوں کی قومی ریفرنڈم میں شرکت کے لئے اقدام پر زور دیتا ہے۔
ایران "فلسطین کاز کے دفاع" ہر فورم پر کوششیں جاری رکھے گا۔
فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام اس وقت صہیونی افواج کی طرف سے آئے روز ہونے والی جنگوں اور قتل و غارت گری کے شکار ہیں اور اسدوران ہم عالمی برادری، نام نہاد اسلامی ممالک اور حکومتوں کی شرمناک خاموشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ خاص طور پر عرب حکومتوں کی بے عملی (خیانت) کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کاز کے دفاع کے لیے ہر موقع اور فرصت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی توانائیاں بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی اس فورم میں فعال موجودگی اسلامی جمہوریہ ایران کے اس اقدام کی ایک واضح مثال ہے۔
آپ کا تبصرہ