4 اگست، 2022، 5:48 PM

خطبہ منیٰ؛امام حسینؑ کی سیاسی اور معنوی فکر کا ایک جلوہ

خطبہ منیٰ؛امام حسینؑ کی سیاسی اور معنوی فکر کا ایک جلوہ

حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا کہ امام حسین ﴿ع﴾ نے اپنے خطبہ منیٰ میں مسلمانوں کو یاد دہانی کی ہے کہ اگر امر المعروف اور نہی عن المنکر سے بے اعتنائی کریں تو انہیں یقینی طور پر بہت ہی سخت نتائج اور عبرتوں کو منہ دیکھنا پڑے گا۔ 

مہر خبر رساں ایجنسی: امام حسین علیہ السلام نے امیر شام معاویہ بن ابو سفیان کی موت سے ایک یا دو سال پہلے منیٰ میں بنی امیہ کی خلافت کے انحرافات کی نشاندھی کرتے ہوئے ایک خطبہ دیا۔ یہ خطبہ اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ حج کے ایام میں اور امیر شام کی خلافت کے دوران دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ خطبہ صحابہ اور تابعین کے اجتماع میں پیش کیا گیا ہے بعض محققین اسے امام حسین علیہ السلام کی قیامِ کربلا کے لئے منصوبہ بندی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ خطبے کے پہلے حصے کو سلیم بن قیس ہلالی نے  اپنی کتاب میں جبکہ اس کے دوسرے اور تیسرے حصے کو علامہ حسن بن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں ذکر کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا خطبہٴ منیٰ چند حصوں پر مشتمل ہے کہ جن میں امام علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل اور ان آیات و روایات کا بیان سرفہرست ہے جو اہل بیت ﴿ع﴾ مخصوصا امام علی ﴿ع﴾ کی شان اور فضیلت میں نازل اور بیان ہوئی ہیں، من جملہ سد ابواب، غدیر خم کا واقعہ، مباہلہ، امام علی ﴿ع﴾ کے ہاتھوں فتح خیبراور حدیث ثقلین ہیں۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دی گئی ہے اور اس اہم اسلامی فریضہ پر زور دیا گیا ہے۔ ایک اور توجہ جو اس خطبے میں دلائی گئی ہے ظل و ستم کے مد مقابل علما کی ذمہ داری اور ظالمین اور مفسدین کے مقابلے میں ان کے قیام کرنے کی ضرورت پر تاکید ہوئی ہے جبکہ سمتگروں کے سامنے علما کی خاموشی کے نقصانات اور ان کی اس عظیم الٰہی فریضے کے بارے میں سہولت پسندی، غفلت اور بے پروائی کے خطرناک نتائج کی نشاندھی کی گئی ہے۔ 

خطبے کے مضمون کے بیان سے پہلے اس کی ایک اہم بات حساس وقت اور مناسب مکان کا انتخاب ہے، نیز اسلامی شخصیات کو دعوت دے کر بلانا، بنی ہاشم کے چیدہ چیدہ مرد و خواتین اور مہاجر و انصار صحابہ کرام کو شریک کرنا ہے۔ خطبے کو سننے والوں میں دو سو کی تعداد ان افراد پر مشتمل تھی جنہیں صحابی ہونے اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے فیض حضور کا شرف حاصل تھا جبکہ آٹھ سو سے زائد افراد صحابہ کی اولاد ﴿تابعین﴾ تھے۔ امام حسین نے اس اہتمام اور تدبیر کے ذریعے اور اس زمانے میں موجود امکانات و سہولیات کو دیکھتے ہوئے سامعین میں ایک موج اور حرکت ایجاد کی تاکہ خطبہ سننے والے جب اپنے وطنوں کو واپس پلٹیں تو دوسروں تک آپ کا پیغام پہنچائیں اور ان کی بیداری کی زمین ہموار ہو۔ 

خطبہ منیٰ؛امام حسینؑ کی سیاسی اور معنوی فکر کا ایک جلوہ

مذکورہ خطبے کے سلسلے میں حوزہ علمیہ کے استاد حجة الاسلام والمسلمین سید محمد باقر علم الہدی نے تفصیلی شرح پیش کی ہے، ذیل میں مہر کے قارئین کے لئے ان کی گفتگو کا ایک حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔    

بیان ہوا کہ امیر شام کی موت سے پہلے ۵۸ ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے سرزمین منیٰ میں ایک خطبہ پیش کیا اور تقریباً دو سو کے قریب صحابہ اور آٹھ سو تابعین کے مجمع میں اپنی فکر اور اصولوں کو تاریخ کے لئے یادگار چھوڑا اور اپنا طرز فکر اور رفتار بیان کیا۔ 

امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبہٴ منیٰ میں انتہائی اہم نکات پیش کئے ہیں۔ ان میں سے ہر محور اور نکتہ اپنے طور پر امام حسین علیہ السلام کی فکری بنیادوں کو بیان کرنے والا اور تاریخ کی اس عظیم تحریک کی دلیل شمار ہوتا ہے۔ 

پہلے مرحلے میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار امام علی علیہ السلام کے فضائل کے متعلق ان آیات و روایات کو پیش کیا ہے جو امام علی علیہ السلام کی شان و منزلت میں بیان ہوئی ہیں، من جملہ آیہ مباہلہ اور اسی طرح سد ابواب کے سلسلے میں وارد ہونے والی احادیث کہ جب پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے حکم فرمایا تھا کہ تمام اصحاب و انصار کے گھروں کے دروازے جو مسجد نبوی کے اندر کھلتے ہیں، بند کردیئے جائیں اور مسجد کے اندر صرف حضرت امام علی ﴿ع﴾ کے گھر کا دروازہ کھلا رہے۔ اسی طرح حدیث ثقلین، فتح خیبر اور واقعہ غدیر کا ذکر کرتے ہیں۔ 

ایک دوسرا محور جو امام حسین علیہ السلام کے خطبے میں پیش کیا گیا ہے اس اسلامی فریضے کے متعلق ہے کہ جسے قرآن مجید نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان کے ذیل تمام مسلمانوں پر عائد کیا ہے۔ امام علیہ السلام اس دینی فریضے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے تمام افراد خاص طور پر تربیت کرنے والوں، معلمین و مبلغین اور دانشوروں پر ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی نشاندھی کی ہے۔ 

اسی طرح امام علیہ السلام نے اس معاملے میں سہولت پسندی، غفلت اور بے پروائی کے خطرے سے بھی آگاہ کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو معلوم ہوسکے کہ اگر انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بے اعتنائی کی تو لامحالہ انہین انتہائی سخت نتائج اور عبرتوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ 

خطبے کے آخری حصے میں امام حسین علیہ السلان نے لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ جو باتیں پیش کی گئی ہیں وہ اپنی زندگی کا مفاد حاصل کرنے اور دنیوی حکومت تک رسائی کے لئے بیان نہیں ہوئیں بلکہ ان کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ شاید امام حسین کا لوگوں کو معروضی حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے سرزمین منیٰ میں جمع کرنے کا ایک اہم ترین سبب یہی امر یعنی انہیں ان کے اس عظیم الٰہی فریضے کی یاد دہانی کرنا تھا۔

News ID 1911838

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha