مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ایجنٹ ایڈورڈ اسنوڈن نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی جی سی ایچ کیو نے پاکستان کے جس کمیونی کیشن سسٹم کی نگرانی کی اس کے لئے کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن جسے مختصرا ’سی این ای‘ کہا جاتا ہے، یہ بنیادی طور پر ڈیجیٹل جاسوسی ہے جس میں ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی اور کی ملکیت ہوتی ہے۔
ایڈورڈ اسنوڈن نے کہا کہ برطانوی خفیہ ایجنسی جی سی ایچ کیو اورامریکہ کے این ایس اے جیسے خفیہ ادارے نیٹ ورک سروس پروائیڈرکے علم میں لائے بغیرخفیہ طورپران نیٹ ورکس سے جڑے ایسے آلات تک مکمل رسائی حاصل کرلیتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی ہو۔ برطانوی خفیہ ایجنسی نے بھی پاکستان کی ٹیلی کمیونی کشن سسٹم کی جاسوسی ٹیکنالوجی کمپنی سسکو کے راؤٹرز کو ہیک کر کے کی اوراس کی منظوری باقاعدہ برطانوی حکومت نے دی تھی جس کا بظاہر مقصد دہشت گردوں کی شناخت اور نشاندہی تھا۔
امریکہ کے سابق اور فراری ایجنٹ کا کہنا تھا کہ جدید اسمارٹ فونز کو سیکیورٹی ایجنسیوں کی مکمل رسائی سے محفوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہے اور ایسے فون استعمال کرنے والے اپنی معلومات کے بچاؤ کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات ہی کر سکتے ہیں۔ جی سی ایچ کیو اور این ایس اے نے اسمارٹ فونز کی ہیکنگ کے لئے ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
ایڈورڈ اسنوڈن نے کہا کہ برطانوی ایجنسی جی سی ایچ کیو ایک انکرپٹڈ تحریری پیغام بھیج کر کسی بھی اسمارٹ فون کو تصاویر کھینچنے یا اس پر کی جانے والی بات چیت سننے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ جب خفیہ ادارے کسی صارف کے فون تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو پھروہ جان سکتے ہیں کہ مذکورہ فرد کسے کال کرتا ہے، کیا پیغامات بھیجتا ہے اور انٹرنیٹ پر کہاں کہاں جاتا ہے۔ انھیں رابطے میں رہنے والے افراد کے علاوہ اسمارٹ فون کو استعمال کرنے والے کی نقل و حرکت اور ان وائرلیس نیٹ ورکس کا بھی علم ہوتا ہے جن سے وہ رابطہ کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ