مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکا کے پیش کردہ مسودۂ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں جنگ کے بعد غزہ کے انتظام کے لیے ایک نیا ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں تین بنیادی ستون شامل ہیں: "امن کونسل"، "بین الاقوامی امن فورس" اور "تعمیر نو پروگرام" جو غیر ملکی اداروں کی نگرانی میں چلایا جائے گا۔ حماس اور اسلامی جہاد نے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غزہ پر بین الاقوامی حاکمیت قرار دیا ہے۔ روسی نمائندے نے بھی اس قرارداد کے طریقۂ کار کو فریب دہی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج پر خبردار کیا۔
منصوبے کے مطابق "امن کونسل" کے پاس تعمیر نو، امداد کی تقسیم اور ادارہ جاتی اصلاحات کے فیصلوں کا اختیار ہوگا اور عبوری دور میں غزہ کا سب سے بڑا سیاسی ادارہ ہوگی۔ اس کی سربراہی علامتی طور پر امریکی صدر کو دی گئی ہے اور اس کا دورانیہ 2027 تک مقرر کیا گیا ہے۔
اسی طرح "بین الاقوامی امن فورس" کو غزہ میں داخل کرکے مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے، سرحدی گذرگاہوں کی حفاظت، فلسطینی پولیس کی تربیت اور محفوظ علاقے قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
منصوبے کے اقتصادی حصے میں ایک "تعمیر نو فنڈ" قائم کیا گیا ہے جو عالمی بینک اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی نگرانی میں کام کرے گا۔ یہ فنڈ بجٹ کی تقسیم، منصوبوں کی ترجیحات اور تعمیر نو کے عمل پر کنٹرول رکھے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کے مالی وسائل فلسطینی اداروں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ظاہر میں یہ منصوبہ "استحکام"، "تعمیر نو" اور "انسانی حمایت" کی زبان میں لکھا گیا ہے، لیکن حقیقت میں اس کے نتائج عوام کے لیے سنگین خدشات پیدا کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس منصوبے کے پانچ بڑے خطرات ہیں:
1۔ غزہ کے عوام سے حاکمیت چھین کر فیصلے ایک بین الاقوامی کونسل کے سپرد کرنا۔
2۔ مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کر کے اسرائیل کے حق میں طاقت کا توازن بدلنا۔
3۔ مالی وسائل اور تعمیر نو کے منصوبوں کو غیر ملکی اداروں کے کنٹرول میں دینا۔
4۔ غیر ملکی افواج کی طویل موجودگی کا امکان۔
5۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے مبہم اور غیر واضح لائحہ عمل۔
مجموعی طور پر یہ منصوبہ اس بات کی کوشش ہے کہ اسرائیل کی میدان جنگ میں ناکامیوں کا سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر ازالہ کیا جائے، جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام کو مزید مشکلات اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ