24 اکتوبر، 2025، 7:38 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

شیخ جمال ابوالہیجاء: صہیونی جیلوں میں ربع صدی سے جاری فلسطینی استقامت کا استعارہ

شیخ جمال ابوالہیجاء: صہیونی جیلوں میں ربع صدی سے جاری فلسطینی استقامت کا استعارہ

چوبیس برس کی قید، بیٹے کی شہادت، اہلِ خانہ کی اسارت اور شریکِ حیات کے فراق کے باوجود، شیخ جمال ابوالہیجاء آج بھی فلسطینی مزاحمت کی صبر و استقلال سے روشن ہوتی ہوئی علامت ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فلسطینی مزاحمتی تحریک کی تاریخ میں قیدیوں کی جدوجہد کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی اسیران، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، کئی دہائیوں سے صہیونی جبر، طویل اسارت، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان قیدیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں بیس سے زائد برس گزر چکے ہیں، مگر ان کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی۔

شیخ جمال ابوالہیجاء انہی نمایاں چہروں میں سے ایک ہیں۔ وہ حماس کی عسکری شاخ عزالدین قسام بریگیڈ کے ایک اہم کمانڈر رہے، جنہیں 2002 میں جنین کیمپ پر اسرائیلی حملے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان پر اسرائیلی شہریوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کی قیادت کا الزام لگا کر نو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

جمال ابوالہیجاء کون ہیں؟

عرب میڈیا کے مطابق، جمال ابوالہیجاء ان قیدیوں میں شامل ہیں جو گزشتہ 24 برس سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کا خاندان 1948 کی نکبت کے بعد حیفا کے علاقے میں واقع گاؤں عین حوض سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ وہ 1959 میں جنین کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی زبان میں تعلیم حاصل کی اور تقریبا 10 سال تک سعودی عرب اور یمن میں عربی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں واقع پناہ گزین کیمپ واپس آگئے۔

ابوالہیجاء کو متعدد بار صہیونی حکومت نے گرفتار کیا۔ دوسری انتفاضہ کے دوران جب 2002 میں جنین پر اسرائیلی حملہ ہوا، وہ حماس کی عسکری شاخ عزالدین قسام بریگیڈ کے ایک اہم کمانڈر کے طور پر سرگرم تھے۔

اسی سال انہیں صہیونی افواج نے گرفتار کرلیا اور اسرائیلیوں پر حملوں کی قیادت کرنے کے الزام میں نو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

جمال ابوالہیجاء کے چھ بچے ہیں، جن میں سے تین عاصم، عبدالسلام اور عماد اس وقت اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کا ایک اور بیٹا، حمزہ، 2014 میں صرف 21 سال کی عمر میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔ ان کی بیٹی بنان بھی صہیونی جیل میں قید ہے، جبکہ دوسری بیٹی ساجدہ واحد فرد ہے جو اسرائیلی قید سے باہر ہے۔

ساجدہ کہتی ہے کہ آخری بار میں نے اپنے والد کو تقریبا پانچ سال پہلے دیکھا تھا۔ جب صہیونی فوجی ہمارے گھر پر چھاپہ مارنے آئے، میں صرف چھ سال کی تھی۔ قابض فوجی اکثر رات کے وقت گھر پر دھاوا بولتے تاکہ شیخ جمال کو گرفتار کرسکیں۔ وہ بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے۔ ایک بار ساجدہ اور اس کے بھائی حمزہ کو الگ لے جا کر مٹھائی کا لالچ دے کر والد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

ابوالہیجاء صبر کا پہاڑ

جمال ابوالہیجاء، جو 24 سال سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، آج بھی جنین شہر کی مزاحمتی تحریک کا ایک نمایاں چہرہ اور فلسطینی آزادی کی جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ طویل اسارت ان کے حوصلے کو توڑنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس نے انہیں مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ ان کے ساتھی اسیر ربیع البرغوثی انہیں "صبر کا پہاڑ" قرار دیتے ہیں۔

ابوالہیجاء کا شمار حماس کے ان ممتاز قیدیوں میں ہوتا ہے جن کی آزادی سے صہیونی حکومت اس لیے خائف ہے کہ وہ مزاحمت کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جسے طویل قید بھی جھکا نہیں سکی۔

ساجدہ بتاتی ہے کہ ان کے والد نے کبھی کسی چیز کی شکایت نہیں کی۔ انتفاضہ دوم کے دوران اپنا ہاتھ کھو دینے، بیٹوں کی بار بار گرفتاری اور حالیہ دنوں میں اپنی اہلیہ کی وفات کے باوجود وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ وہ حتی کہ جیل میں بھی سکون اور اطمینان سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ جیل میں بھی شیخ جمال کا تمام قیدی احترام کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے انہیں کسی سے بدتمیزی یا غصے میں نہیں دیکھا۔ تمام فلسطینی اسیران انہیں صبر و استقامت کی مثال سمجھتے ہیں۔

ابوالہیجاء کی رہائی اور صہیونی حکومت کا خوف

حالیہ دنوں میں غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد تقریبا 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا گیا، جن میں درجنوں ایسے افراد شامل تھے جو اسرائیل مخالف کارروائیوں میں شریک رہے اور طویل سزائیں کاٹ رہے تھے۔ تاہم کچھ قیدی اب بھی صہیونی حکومت کی مخالفت کے باعث آزادی سے محروم ہیں۔

اگرچہ صہیونی حکومت ان کی رہائی کی سخت مخالفت کرتی ہے، ان کا خاندان آج بھی امید اور ایمان کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ شیخ جمال کی کہانی ان پرانے قیدیوں کی کہانی ہے جنہیں دو دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر قابض قوتیں ان کی آزادی میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔

یہی فلسطین کے دیگر نمایاں قیدیوں کی بھی صورتحال ہے جن میں عباس السید، مروان البرغوثی، حسن سلامہ، احمد سعدات، ابراہیم حامد اور معمر شحرور جیسے رہنما شامل ہیں۔

ان قیدیوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت انہیں جان بوجھ کر قیدیوں کے تبادلے کی فہرستوں میں شامل نہیں کرتی ہے، کیونکہ وہ انہیں بااثر شخصیات سمجھتی ہے جو رہائی کے بعد مزاحمتی تنظیموں کی تنظیم نو کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نام ہمیشہ مذاکرات میں زیر بحث تو ہوتے ہیں، مگر حتمی فہرستوں سے غائب رہتے ہیں۔

شیخ جمال ابوالہیجاء فلسطینی قیدیوں کی استقامت کی علامت ہیں۔ وہ اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جسے ایک چوتھائی صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود جیلیں توڑ نہیں سکیں بلکہ ان کا حوصلہ مزید مضبوط ہوا ہے۔

ان جیسے قیدیوں کی رہائی سے اسرائیل اس لیے خائف ہے کہ وہ آزادی کے بعد مزاحمتی تحریک کو دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اکثر قیدیوں کے تبادلے کی فہرستوں سے جان بوجھ کر خارج رکھا جاتا ہے۔

News ID 1936103

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha