مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ غزہ میں حالیہ جنگ بندی امید کی کرن ہے جو اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
انہوں نے یہ بات غیر وابستہ تحریک کے اجلاس سے قبل اپنے تحریری مضمون میں کہا کہ ایران اس تحریک کو عالمی انصاف، خودمختاری اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم سمجھتا ہے۔ انہوں نے فلسطین کی آزادی اور اقوام متحدہ کے اداروں کی اصلاح پر زور دیا اور کہا کہ ایران ایک حقیقی کثیر قطبی عالمی نظام کے قیام کے لیے پرعزم ہے، جہاں طاقتور ممالک کی بالادستی کے بجائے مساوی ترقی اور خودمختاری کو فروغ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غیر وابستہ تحریک نوآبادیاتی نظام اور سرد جنگ کے دو قطبی نظام کے خلاف ایک اصولی ردعمل کے طور پر ابھری، جس نے ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو امپریالزم کے خلاف متحد کیا۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد اس تحریک میں فعال کردار ادا کیا اور 1979 میں اس کا باقاعدہ رکن بنا۔
عراقچی نے کہا کہ ایران نے 2012 میں تحریک کا سربراہی اجلاس تہران میں منعقد کرکے جوہری تخفیف اسلحہ، فلسطین کی آزادی اور یکطرفہ اقدامات کے خلاف اجتماعی مزاحمت جیسے اہم موضوعات پر عالمی مکالمے کو فروغ دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ تحریک 120 ممالک پر مشتمل ہے، جو دنیا کی نصف سے زائد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے اور اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا کثیرالجہتی فورم ہے۔ اس تحریک نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ترجیحات کو جدید عالمی چیلنجز جیسے موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ڈھالا ہے۔
عراقچی نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 2023 سے جاری نسل کشی میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ حالیہ جنگ بندی ایک نازک موقع ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ مؤثر احتسابی نظام اور اسرائیلی قبضے کے مکمل خاتمے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض مغربی طاقتیں سلامتی کونسل کو غیر قانونی طور پر استعمال کرکے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہیں، جو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
عراقچی نے کہا کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر الزامات اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ ایران کی مذہبی ثقافت کو نہیں سمجھتے۔ انہوں نے رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے اس فتویٰ کا حوالہ دیا جس میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری، حصول اور استعمال کو شرعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اضافی پروٹوکول کو رضاکارانہ طور پر نافذ کیا، جس کے تحت ایجنسی کو بغیر اطلاع کے جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ موجودہ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جا رہا۔
عراقچی نے کہا کہ ایران کا طویل مدتی ہدف 20,000 میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنا ہے، اور اس کے لیے ایندھن کی تیاری کی صلاحیت ضروری ہے۔ یورینیم افزودگی ایران کا ناقابل تنسیخ حق ہے اور توانائی کی خود مختاری کی بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی منظرنامہ جس میں مغربی طاقتوں کی اجارہ داری، تجارتی جنگیں، ٹیکنالوجی کی تقسیم، اور ترقی پذیر ممالک پر پابندیاں شامل ہیں، غیر وابستہ تحریک کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ یہ تحریک ترقی پذیر ممالک کو باوقار انداز میں عالمی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
عراقچی نے امید ظاہر کی کہ کامپالا اجلاس فلسطین کے ساتھ عملی یکجہتی، یکطرفہ پابندیوں کی مذمت اور اقتصادی استحکام کے نئے طریقہ کار پر سنجیدہ تبادلہ خیال کا موقع فراہم کرے گا۔
آپ کا تبصرہ