14 اکتوبر، 2025، 11:45 AM

ڈائریکٹر بین الاقوامی امور مہر نیوز کی خصوصی تحریر:

غزہ میں قیدیوں کا تبادلہ: مشرق وسطی میں امن و مزاحمت کا نیا موڑ

غزہ میں قیدیوں کا تبادلہ: مشرق وسطی میں امن و مزاحمت کا نیا موڑ

شرم الشیخ معاہدے کے تناظر میں قیدیوں کے تبادلے کو فلسطین کی موجودہ تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے؛ جہاں فلسطینی مزاحمت نے اپنی استقامت سے ثابت کیا کہ اقوام کے ارادے جنگی مشینوں پر غالب آسکتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، محمد رضا مرادی: فلسطینی مزاحمت اور صہیونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور غزہ میں جنگ بندی کو مشرق وسطی میں جنگ و امن کے توازن کا ایک فیصلہ کن لمحہ سمجھا جانا چاہیے۔ یہ لمحہ نہ صرف غزہ کے انسانی بحران سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس میں گہرے سیاسی، دفاعی اور اسٹریٹجک پیغامات بھی پوشیدہ ہیں۔

یہ واقعہ تین قوتوں کے درمیان کشمکش کی عکاسی کرتا ہے:

فلسطینی مقاومت: جس نے اپنی پائیداری سے دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔

صہیونی حکومت: جو دو سالہ تھکا دینے والی جنگ کے بعد بحران سے باعزت اخراج کی تلاش میں تھی۔

امریکی حکومت: جو ٹرمپ امن منصوبے کے تحت خطے میں اپنی ساکھ کی بحالی اور تل ابیب جیسے اہم اتحادی کی نجات کی کوشش کر رہی تھی۔

نتن یاہو کے لیے فرار کا دروازہ

یہ معاہدہ، جو امریکی صدر ٹرمپ کی براہ راست ثالثی اور بعض عرب ممالک کی شمولیت سے شرم الشیخ میں طے پایا، دراصل نتانیاہو کے لیے ایک سیاسی تحفہ تھا۔ نتانیاہو، جو گزشتہ دو سالوں میں مسلسل فوجی ناکامیوں، داخلی بحران اور بین الاقوامی دباؤ کا شکار رہا، اب اس جنگ بندی کو اپنی سیاسی حیثیت کی بحالی کا موقع سمجھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ نے اس منصوبے کے ذریعے نتانیاہو کو جنگ کے درخت سے نیچے اتارنے کے لیے سیڑھی فراہم کی۔ ایسی جنگ جس میں نہ صہیونی یرغمالیوں کو رہائی ملی اور نہ فلسطینی مقاومت ختم ہوگئی۔

سفارتی پردے میں چھپی شکست

ٹرمپ کا منصوبہ بظاہر امن پسندانہ دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت وہ نتانیاہو کے لیے میدان جنگ میں حاصل نہ ہونے والی کامیابیوں کو مذاکرات کی میز پر دلوانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مبصرین شرم الشیخ معاہدے کو اسرائیل کے لیے سفارتی پردے میں چھپی شکست قرار دیتے ہیں۔ ایک ایسی کوشش جس میں فوجی ناکامی کو سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمت نے دو سال تک شدید ترین حملوں کے سامنے ڈٹ کر یہ ثابت کردیا کہ محض عسکری طاقت سیاسی ارادے کو مسلط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ قسام بریگیڈز نے بجا طور پر اعلان کیا کہ دشمن، اپنی انٹیلیجنس برتری اور عسکری طاقت کے باوجود اپنے یرغمالیوں کو فوجی دباؤ سے واپس لانے میں ناکام رہا اور اب مجبور ہو کر تسلیم کرچکا ہے کہ جیسا کہ مزاحمت نے وعدہ کیا تھا، اسرائیلی یرغمالی صرف مذاکرات کے ذریعے ہی واپس آئیں گے۔

اسرائیل نے اس جنگ میں یہ سیکھا کہ فوجی کارروائیاں میدان جنگ کی تقدیر کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ یرغمالیوں کی رہائی کا عمل، جو مذاکرات اور معاہدے کے ذریعے ممکن ہوا، دراصل تل ابیب کی طرف سے طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی کی ناکامی کا غیر علانیہ اعتراف ہے۔ وہی حکمت عملی جو 1948 سے اسرائیل کی سلامتی کا ستون سمجھی جاتی رہی ہے۔

مقاومت کی طاقت اور حقیقت کی تسلیم

اسیران کا تبادلہ ایک علامتی اور نفسیاتی پہلو بھی رکھتا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے مزاحمت کو ایک دہشت گرد قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، اس معاہدے کی تکمیل نے یہ ظاہر کر دیا کہ اسرائیل کو اسی قوت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا جس کی مشروعیت وہ انکار کرتا رہا تھا۔ دوسرے الفاظ میں مقاومت اس عمل کے ذریعے ایک عسکری گروہ سے بڑھ کر ایک سیاسی کردار میں تبدیل ہو گئی۔ ایسا کردار جو اپنی مرضی کو مذاکرات، جنگ بندی اور معاہدوں کے ذریعے نافذ کرسکتا ہے۔

یہ تبدیلی دنیا کی حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے بارے میں سوچ کو بھی بدل سکتی ہے، اور ممکن ہے کہ فلسطین کے سیاسی مستقبل میں ان کے کردار کی نئی تعریف کی بنیاد بنے۔ اس کے برعکس اسرائیل مشروعیت کے بحران کا شکار ہو چکا ہے: ایک طرف عالمی رائے عامہ جو غزہ میں انسانی مظالم کی گواہ ہے اور دوسری طرف اسرائیلی معاشرہ یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کو ناقابل شکست فوج کی ساکھ کے زوال کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

قیدیوں کا تبادلہ: انسانی اور سماجی پیغام

انسانی نقطۂ نظر سے فلسطینی اسیران کی وطن واپسی اور اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملاقات ایک تاریخی لمحہ تھا۔ ناصر اسپتال خان یونس میں استقبال کے مناظر صرف خوشی کا لمحہ نہیں تھے، بلکہ غزہ کے عوامی جذبے کی اجتماعی فتح کی علامت تھے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ دو سال کی بھوک، بے گھری اور محاصرے کے باوجود فلسطینی معاشرہ اندر سے ٹوٹا نہیں، بلکہ اس نے اپنی شہری اور سماجی مزاحمت کی صلاحیت کو محفوظ رکھا ہے۔

سیاسی نقطہ نظر سے اس واقعے کو تباہی کے بیانیے پر مزاحمت کے بیانیے کی فتح کہا جا سکتا ہے۔ ایسا بیانیہ جو کھنڈرات سے جنم لیتا ہے اور امید کا پیغام دیتا ہے۔ ان قیدیوں کی واپسی دراصل اجتماعی جدوجہد کی واپسی ہے، کیونکہ ہر قیدی ظلم اور استقامت کی زندہ گواہی بن جاتا ہے۔

نتیجہ

شرم الشیخ معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ فلسطین کی معاصر تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے؛ ایسا موڑ جہاں مزاحمت نے اپنی استقامت سے طاقت کے توازن کو بدل دیا اور یہ ثابت کیا کہ قوموں کا ارادہ جنگی مشینوں پر غالب آسکتا ہے۔

دوسری طرف، ٹرمپ کا معاہدہ اگرچہ نتانیاہو کے لیے فتح کی تصویر کشی کی کوشش تھی، لیکن درحقیقت یہ اسرائیل کی عسکری حکمت عملی کی ناکامی پر مہرِ تصدیق تھا۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ بندی پائیدار امن کی طرف لے جائے گی یا صرف قابض قوتوں کے لیے طاقت بحال کرنے کا وقفہ ہے؟

تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ اسرائیل نے کبھی کسی معاہدے کی وفاداری نہیں کی۔ اسرائیلی حکام، بشمول نتانیاہو اور وزیر جنگ، کی جانب سے حماس کی نابودی اور سرنگوں کی تباہی جیسے بیانات تل ابیب کی حقیقی نیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے، دوبارہ تصادم کا خطرہ یا معاہدے کی مخصوص شقوں کو انتخاب کرکے نافذ کرنے کا امکان اب بھی موجود ہے۔

News ID 1935930

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha