4 اکتوبر، 2025، 7:14 PM

سابق فرانسیسی سفارت کار کی مہر نیوز سے گفتگو:

ایران کا جوہری پروگرام، پابندیوں سے معاملہ مزید گھمبیر ہوگا، مراعات ہی واحد حل ہیں

ایران کا جوہری پروگرام، پابندیوں سے معاملہ مزید گھمبیر ہوگا، مراعات ہی واحد حل ہیں

سابق فرانسیسی سفارت کار نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کے جوہری مسئلے کے حل کے لئے پابندیوں کو نقصان دہ قرار دیا اور مراعات دینے کی تجویز دی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ ایک تاریخی سفارتی کامیابی کے طور پر سامنے آیا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی، جبکہ امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا۔

تاہم 2018 میں امریکہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے سے انخلا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد یہ معاہدہ شدید بحران کا شکار ہوگیا۔ اس اقدام نے نہ صرف ایران کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا بلکہ معاہدے کی ساکھ کو بھی شدید دھچکا دیا۔

2020 میں امریکہ نے JCPOA کے تحت اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کی کوشش کی، جس کے ذریعے اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں دوبارہ نافذ کی جاسکتی تھیں۔ تاہم چونکہ امریکہ اب معاہدے کا فریق نہیں رہا تھا، سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے اس اقدام کی مخالفت کی۔

2025 میں بھی JCPOA کی بحالی یا اس سے متعلق کسی نئے معاہدے پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ حالیہ دنوں میں روس اور چین نے قرارداد 2231 کی توسیع کی تجویز دی تاکہ سفارتی راستے کھلے رہیں، مگر امریکہ اور یورپی ممالک نے اس کی مخالفت کی۔

مبصرین کے مطابق امریکہ اور یورپی ممالک نے اقوام متحدہ میں اسنیپ بیک میکانزم کے تحت دوبارہ ایران پر پابندیوں کو فعال کرکے جوہری مسئلے پر مذاکرات کی راہوں کو مزید تنگ کردیا۔ سابق فرانسیسی سفارتکار مارک فیناڈ نے JCPOA طرز کی مراعاتی پالیسی کو موجودہ بحران کے حل کے لیے مؤثر قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ پابندیاں اکثر ناکام رہتی ہیں جبکہ ان کا خاتمہ مذاکرات کی راہ ہموار کرتا ہے۔

اس صورتحال پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے مہر نیوز ایجنسی نے جنیوا سینٹر فار سیکیورٹی پالیسی (GCSP) کے سینئر مشیر اور فرانسیسی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان مارک فیناڈ سے خصوصی گفتگو کی۔

مارک فیناڈ نے اسنیپ بیک میکانزم کے قانونی اور سیاسی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ کار JCPOA مذاکرات کے دوران روس کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا تاکہ معاہدے کے شرکاء کو ایران کی جانب سے وعدوں کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر دباؤ کا ذریعہ فراہم کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ میکانزم خاص طور پر امریکی کانگریس میں موجود شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس عمل کو کسی بھی شریک ملک کی جانب سے شروع کیا جاسکتا تھا اور یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی ویٹو سے بچنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ قانونی طور پر یہی عمل یورپی ٹرائیکا کی جانب سے شروع کیا گیا، جنہوں نے 2003 میں JCPOA مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔

انہوں نے JCPOA سے امریکہ کے 2018 میں انخلا اور اس کے بعد اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کی کوششوں کے درمیان تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحران کی جڑیں ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے سے نکلنے کے فیصلے میں ہیں۔ جب امریکہ نے 2020 میں اسنیپ بیک کو فعال کرنے کی کوشش کی، تو سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے اس کی مخالفت کی کیونکہ امریکہ اب JCPOA کا شریک نہیں رہا تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ نے یورپی ٹرائیکا کی تجویز کی حمایت کی اور سلامتی کونسل میں پابندیوں کی چھوٹ میں توسیع کے خلاف ووٹ دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس صورتحال سے عالمی برادری کو کثیرالطرفہ معاہدوں کی ساکھ کے بارے میں کیا پیغام جاتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یقیناً، امریکہ کا انخلا ایک منفی پیغام تھا اور اس نے ایک بار پھر عالمی چیلنجز کے حل کے لیے بڑی طاقتوں کی سیاست اور نظام کے درمیان کشیدگی کو اجاگر کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایران نے بھی جوابی ردعمل کے طور پر کچھ وعدوں کو نظر انداز کیا، جن میں IAEA کا جامع حفاظتی معاہدہ اور JCPOA شامل ہیں، جس سے اس کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر شکوک پیدا ہوئے۔ مارک فیناڈ کا اشارہ ان اقدامات کی طرف تھا جو ایران نے JCPOA سے امریکہ کے انخلا اور یورپی ممالک کی جانب سے ایران کے نقصانات کا ازالہ نہ کرنے کے بعد اپنے وعدوں میں بتدریج کمی کے طور پر اٹھائے۔

سلامتی کونسل میں طاقت کے توازن پر بات کرتے ہوئے فیناڈ نے اس امر پر زور دیا کہ مغربی مستقل ارکان اور روس و چین کے درمیان پرانی تقسیم نے برسوں سے کونسل کو مفلوج کر رکھا ہے، جس کے باعث یہ ادارہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل اور تنازعات کے حل میں ناکام رہا ہے۔ جب تک تمام مستقل ارکان عالمی امن و سلامتی کو اپنی قومی مفادات پر ترجیح نہیں دیں گے، سلامتی کونسل غیر مؤثر ہی رہے گی۔

آخر میں، سابق فرانسیسی سفارتکار نے ایران کے جوہری مسئلے پر پابندیوں اور دباؤ سے ہٹ کر متبادل حل کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عسکری آپشنز یا زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، جیسا کہ امریکہ یا اسرائیلی حکومت کی ترجیح ہے، پرامن حل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ پابندیاں شاذ و نادر ہی سیاسی اہداف حاصل کرتی ہیں اور اکثر عام شہریوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کے برعکس جوہری معاہدے نے یہ ثابت کیا ہے کہ پابندیوں میں نرمی کی امید مذاکرات کے لیے زیادہ مؤثر ترغیب ثابت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے نے ثابت کیا کہ پابندیوں میں چھوٹ کی امید معاہدے کی جانب ترغیب ہے۔ یہی ماڈل موجودہ بحران کے حل کے لیے اپنایا جانا چاہیے۔

News ID 1935754

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha