مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید عباس عراقچی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے موقع پر ایران، چین، روس اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ چار فریقی سے خطاب میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دوسرے ممالک کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول پر قائم ہے اور افغان عوام کے اس حق کی حمایت کرتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی، معاشی اور سماجی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عبوری حکومت کی کوششوں کے باوجود افغانستان کو اب بھی سکیورٹی، انسانی بحران اور معاشی استحکام کے شدید مسائل کا سامنا ہے، جو صرف داخلی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں۔
عراقچی نے مزید کہا کہ خطے کے ممالک پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعمیری انداز میں افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کریں۔
انہوں نے اقتصادی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پابندیاں ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کی جانی چاہئیں تاکہ افغانستان کی معاشی بحالی یا عبوری حکومت کے ساتھ جائز روابط میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ افغانستان کے بیرون ملک منجمد اثاثے فوری اور بلاشرط بحال کیے جائیں تاکہ افغان عوام کو ریلیف مل سکے۔
عراقچی نے خبردار کیا کہ افغانستان میں اب بھی شدت پسند اور دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو پڑوسیوں اور خطے کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ عبوری حکومت شفاف، قابل تصدیق اور مؤثر اقدامات کرے اور دہشت گردی کے خلاف جامع اور غیرامتیازی جدوجہد کی جائے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایران لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جس سے اس کی معیشت اور سکیورٹی پر اربوں ڈالر کا بوجھ پڑا ہے، جبکہ ایران خود سخت ترین یکطرفہ پابندیوں کا شکار ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی مداخلت اور افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط فوجی موجودگی کے نتائج صرف تباہی اور عدم استحکام کی صورت میں نکلے۔ اس موجودگی نے ہزاروں افغانوں کی جان لی، دہشت گردی، منشیات، کرپشن، غربت اور ہجرت کو ہوا دی۔
آپ کا تبصرہ