مہر خبررساں ایجنسی؛ سیاسی رپورٹ - ہادی رضائی: ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر منگل کی شام ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کی یکجہتی اور اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ایٹمی اور دفاعی مسائل پر مذاکرات صرف نقصان دہ اور مکمل بے نتیجہ ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن کی زور زبردستی کی درخواستوں کا ذکر کیا، جس میں ایران کے میزائل رینج کو محدود کرنے کی خواہش شامل ہے، اور اسے امریکہ کی تسلط پسندی کی حکمت عملی قرار دیا جو ایران کو ہتھیار سے محروم کرنے اور اسے تسلیم کروانے کے لیے ہے۔

رہبر انقلاب نے خطاب میں دفاع مقدس اور مزاحمتی محاذ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا اور ایران کی ایٹمی کامیابیوں اور دفاعی قوت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایٹمی مسئلے یا دیگر امور پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات مکمل بے نتیجہ ہیں۔ یہ بیان حالیہ دباؤ کا جواب ہے، جس میں واشنگٹن نے بار بار ایران سے یورینیم کی افزودگی بند کرنے اور بیلسٹک میزائل کی رینج کو ۵۰۰ کلومیٹر سے کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
قوم کا اتحاد، ایٹمی قوت اور امریکہ کی زور زبردستی کا جواب
رہبر انقلاب نے ۱۲ روزہ حالیہ جنگ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی عوام کا اتحاد دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کی اصل وجہ ہے۔ دشمن نے افرا تفری اور بدامنی پیدا کرنے کے لیے فوجی اور اہم شخصیات کو نشانہ بنایا، مگر ایرانی عوام کی یکجہتی نے دشمن کے ارادے کو ناکام بنایا۔ انہوں نے ہر قسم کی نسلی یا سیاسی خلیج پیدا کرنے کی کوشش کو بہت بڑی غلطی قرار دی۔
انہوں نے یورینیم افزودگی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور اسے ایران کی سائنسی ترقی اور خود کفالت کی علامت قرار دیا۔ ایران نے پچھلے ۳۳ سالوں میں اس ٹیکنالوجی میں ملکی سطح پر ترقی کی اور اب وہ دنیا کے ۱۰ بہترین ممالک میں شامل ہے، جہاں ۶۰ فیصد تک یورینیم افزودگی حاصل کی جا رہی ہے۔ رہبر انقلاب نے ہزاروں ماہرین کی تربیت کا ذکر کیا اور کہا کہ ایرانی قوم اس بات کو نہیں مانے گی کہ افزودگی بند ہو۔
امریکہ کی میزائل پابندی: مذاکرات کے پیچھے تسلط پسندی
رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ ایران درمیانے اور کم فاصلے کے میزائل سے محروم ہو تاکہ حملے کے جواب سے عاجز رہے۔ یہ پابندی ایران کی دفاعی قوت کو محدود کرنے کے علاوہ امریکہ کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جو ایران کو مکمل طور پر ہتھیار سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کہتا ہے کہ ہمارا میزائل رینج ۵۰۰ کلومیٹر سے کم ہونا چاہیے۔

انہوں نے برجام کے تجربے کا حوالہ دیا، جسے امریکہ نے توڑا اور پابندیاں بڑھائیں، اور کہا کہ کوئی بھی شرافت مند قوم دھمکی کے ساتھ مذاکرات قبول نہیں کرتی۔ مذاکرات کو قبول کرنا، مزید مطالبات اور پابندیوں کے لیے دروازہ کھولنا ہے۔
میزائل دباؤ کے پیچھے امریکہ کے خفیہ مقاصد
تحلیل کے مطابق، امریکہ کی میزائل پابندی ایران کے فوجی برتری کو کم کرنے کی حکمت عملی ہے تاکہ ممکنہ حملوں کے وقت ایران کا دفاع کمزور ہو۔ اصل مقصد صلح نہیں بلکہ تسلط پسندی ہے۔ ایران کو ایک کمزور اور تابع طاقت بنانا ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ وہ مذاکرات جو پہلے سے طے شدہ نتیجہ اور دباؤ کے ساتھ ہوں، نقصان دہ اور بے سود ہیں۔
مقاومت کی حکمت عملی، کامیابی کی کنجی
رہبر انقلاب کے بیان نے ایران کی دفاعی سرخ لائنیں واضح کیں اور عالمی برادری کے لیے پیغام دیا کہ ایران زور زبردستی کے سامنے نہیں جھکے گا اور ملکی ترقی جاری رکھے گا۔ ایران نہ صرف ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا بلکہ اپنے میزائل اور ایٹمی حق کی حفاظت کرے گا۔ یہ بیانات ایک قوم کے لیے حوصلہ افزا ہیں جو استکباری طوفانوں کے باوجود ثابت قدم ہے۔
آپ کا تبصرہ