مہر خبررساں ایجنسی اقتصادی ڈیسک- حسن نوریان: ایران اور پاکستان کے درمیان بائیسویں مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس تہران میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال خان اور ایران کی وزیر رہائش و شہری ترقی فرزانہ صادق نے مشترکہ کمیشن کی صدارت کی۔ اجلاس کے ساتھ ساتھ تہران کے چیمبر آف کامرس میں ایک تجارتی کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس میں دونوں ملکوں کے تاجروں اور صنعتکاروں نے شرکت کرکے تجارتی امکانات اور برآمدی صلاحیتوں کا جائزہ لیا۔
گذشتہ ماہ صدر ایران دکتر مسعود پزشکیان نے اسلام آباد کا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر فریقین نے سابقہ صدور کی طے شدہ حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے اور موجودہ تین ارب ڈالر کی تجارت کو دس ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔
ماہرین کے مطابق مشترکہ اقتصادی کمیشن ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے تجارتی رکاوٹوں اور مشکلات پر بات کر کے عملی حل نکالا جا سکتا ہے۔ ایرانی اور پاکستانی نجی شعبے کی آراء کو شامل کرکے تجارت کو مزید آسان بنایا جاسکتا ہے اور دس ارب ڈالر کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرسکتی ہیں۔ ایرانی نجی اور سرکاری شعبہ جو بہت سی اشیاء دیگر ممالک سے خریدتا ہے، وہ پاکستان سے حاصل کی جاسکتی ہیں، جبکہ پاکستان کی متنوع ضروریات ایران پوری کرسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر طویل زمینی سرحد، چابہار اور گوادر کی قریبی بندرگاہیں، براہِ راست پروازیں، ہوائی کارگو اور سرحدی منڈیاں ایسے عوامل ہیں جو تجارتی اور لاجسٹک تعاون کو مزید آسان بناتے ہیں۔
پاکستانی عوام ایرانی خوراکی مصنوعات کو دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کی چار بڑی وجوہات ہیں: حلال ہونا، ذائقے میں مماثلت، اعلیٰ معیار اور مناسب قیمت۔ دونوں ممالک مل کر تقریباً 350 ملین افراد کی ایک بڑی منڈی تشکیل دیتے ہیں جو تجارتی توسیع کے لیے غیر معمولی امکانات فراہم کرتی ہے۔
گذشتہ برسوں میں پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو جیوپالیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ معیشت کو استحکام اور ترقی مل سکے۔ دوسری جانب ایران نے رہبر معظم انقلاب کی رہنمائی میں معاشی مزاحمت کی حکمت عملی اختیار کی ہے تاکہ تیل پر انحصار کم ہو اور ملکی معیشت عالمی دباؤ کا مقابلہ کرسکے۔ دونوں ممالک کی قیادت اب ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایران اپنی ترجیحی پالیسی کے تحت ہمسایہ ممالک خصوصاً مشرقی سرحدی ریاستوں جیسے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام ادارے نجی شعبے کو درپیش رکاوٹوں کو دور کریں تاکہ علاقائی تعاون کی پالیسی حقیقت کا روپ دھارسکے۔
آپ کا تبصرہ