8 ستمبر، 2025، 10:59 AM

"صمود" بیڑے میں شامل پاکستانی سابق سینیٹر کی مہر نیوز سے گفتگو:

ہر حال میں غزہ پہنچنا چاہتے ہیں، گرفتار ہوجاؤں تو بھی حکومت پاکستان اسرائیل سے رابطہ نہ کرے

ہر حال میں غزہ پہنچنا چاہتے ہیں، گرفتار ہوجاؤں تو بھی حکومت پاکستان اسرائیل سے رابطہ نہ کرے

بین الاقوامی امدادی بیڑے میں پاکستانی سینیٹر مشتاق نے کہا ہے کہ غزہ تک پہنچنا اولین ترجیح ہے۔ گرفتار ہونے کی صورت میں حکومت پاکستان کو اسرائیل سے رابطے کا کوئی حق نہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسرائیل نے گذشتہ کئی سالوں سے غزہ کا سخت محاصرہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں وہاں انسانی بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ لاکھوں فلسطینی بنیادی سہولیات جیسے خوراک، دوا اور پانی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اور ممالک صہیونی جارحیت کو روکنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی سطح پر مختلف انسانی حقوق کے گروہ اور فعال کارکن اس محاصرے کو توڑنے کے لیے سرگرم ہیں۔ بین الاقوامی بحری بیڑا "صمود" بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے، جس کا مقصد غزہ تک انسانی امداد پہنچانا اور اسرائیلی حملوں کے خلاف عالمی شعور اجاگر کرنا ہے۔

بین الاقوامی بحری بیڑا "صمود" میں دنیا کے 44 ممالک کے 70 سے زائد بحری جہاز شامل ہیں. اس بیڑے میں مختلف عالمی اتحاد جیسے «فریڈم فوٹیلا»، «عالمی غزہ تحریک»، «کاروانِ صمود» اور ملیشیا کا «الصمود نوسانتارا» شریک ہیں۔ معروف سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان بشمول گرتا تونبرگ، ماریانا مورتگوا اور دیگر شخصیات بھی اس کاروان میں شامل ہیں۔

یہ قافلہ دنیا کی سب سے بڑی بحری تحریک قرار دیا جارہا ہے، جس میں ہزاروں افراد شریک ہیں اور اس کا ہدف ہے کہ ستمبر کے وسط تک غزہ پہنچا جائے۔ قافلہ تیونس، لیبیا اور مصر سے گزر کر غزہ میں داخل ہوگا۔ دوسری جانب صہیونی حکومت نے دھمکی دی ہے کہ وہ ان جہازوں پر موجود تمام کارکنوں کو گرفتار کرے گی۔

پاکستان سے اس کاروان میں پانچ رکنی ٹیم شریک ہے، جس کی قیادت سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں «Save Gaza» کیمپین کے تحت فلسطین کے لیے سرگرم ہیں۔

سابق سینیٹر کی مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کا متن درج ذیل ہے: 

مہر نیوز: کس وجہ سے آپ صمود بیڑے میں شامل ہوگئے؟ اس امدادی بیڑے کے مقاصد کیا ہیں اور پاکستان سے کتنے لوگ اس بیڑے میں شریک ہیں؟ 

مشتاق احمد خان:اس کاروان میں 40 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے حامی شریک ہیں۔ پاکستان سے پانچ رکنی قافلہ بھی بیڑے پر سوار ہے۔ یہ کاروان غزہ کے محاصرے کو توڑنے، وہاں جاری نسل کشی کو روکنے اور مظلوم عوام تک ہنگامی انسانی امداد پہنچانے کے لیے روانہ ہوا ہے۔ امداد میں خوراک، پینے کا پانی، دوا، دودھ اور دیگر ضروری اشیاء شامل ہیں۔ یہ کاروان بین الاقوامی پانیوں کے ذریعے غزہ میں داخل ہوگا اور کسی قسم کی قانون شکنی نہیں کرے گا۔

ہر حال میں غزہ پہنچنا چاہتے ہیں، گرفتار ہوجاؤں تو بھی حکومت پاکستان اسرائیل سے رابطہ نہ کرے

 اس قافلے کا دوسرا مقصد غزہ میں جاری اس نسل کشی کو روکنے کی کوشش ہے جو اسرائیل کر رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے اس حوالے سے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس بیڑے کا تیسرا مقصد مظلوم عوامِ غزہ تک انسانی ہمدردی پر مبنی امداد پہنچانا ہے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ یہ بیڑا بین الاقوامی پانیوں کے راستے غزہ میں داخل ہوگا اور کسی قسم کی قانون شکنی نہیں کی جائے گی۔ 

مہر نیوز: یہ قافلہ کتنے دنوں میں غزہ پہنچے گا؟ قافلے میں کونسے امدادی سامان ہیں؟ 

مشتاق احمد خان: جی ہاں، ہم اتوار کے روز، تونس سے غزہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ اس کاروان میں 70 جہاز شامل ہیں جو انسانی امداد لے کر جا رہے ہیں، جن میں خوراک، پینے کا پانی، ادویات، دودھ پاؤڈر اور دیگر ضروری سامان شامل ہے۔ 
اسی طرح اس بیڑے میں دنیا بھر کی نمایاں شخصیات بھی شریک ہیں؛ جن میں نیلسن منڈیلا کے نواسے ماندلا منڈیلا، مشہور گلوکار، ماہرینِ قانون، سیاسی و مذہبی رہنما، صحافی، انسانی حقوق اور سماجی کارکنان اور دیگر عالمی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات شامل ہیں۔ 

مہر نیوز: ماضی میں کئی بیڑے غزہ کی جانب روانہ ہوئے، لیکن صہیونی حکومت نے یا تو انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی، یا ان پر حملہ کیا اور حتیٰ کہ بعض کو اغوا بھی کر لیا۔آپ کی نظر میں کیا یہ بیڑا غزہ تک پہنچ پائے گا؟ اور کیا اب تک اس قافلے کو اسرائیل کی جانب سے کوئی دھمکی دی گئی ہے؟ 

مشتاق احمد خان: یہ بیڑا صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ پر حالیہ جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک روانہ ہونے والا سب سے بڑا کاروان ہے۔ ہمارا مقصد اس غیر انسانی اور غیر قانونی محاصرے کو ختم کرنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنا ہے۔ تاہم، صہیونی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو کوئی بھی اس بیڑے کے ذریعے غزہ کی جانب بڑھے گا، اسے دہشت گرد تصور کیا جائے گا، اس کے ساتھ دہشت گرد جیسا سلوک کیا جائے گا اور بیڑے کی کشتیوں کو ضبط کر لیا جائے گا۔ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا، ماضی میں بعض کشتیوں کو واپس بھیج دیا گیا، کچھ نے امداد غزہ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی اور کچھ پر حملہ کر کے انہیں اغوا کیا گیا۔ آج بھی ہم انہی تین امکانات کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جب کسی سرزمین میں اس قدر بھیانک نسل کشی اور سخت محاصرہ جاری ہو اور حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے ان بڑے تاریخی جرائم کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں، تو عام لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر مظلوموں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔

مہر نیوز: آپ پاکستان میں بھی فلسطین اور غزہ کے حوالے سے سرگرم رہے ہیں اور اب اس کاروان میں شریک ہیں۔ فلسطین کے حامی کارکن کی حیثیت سے آپ دنیا کے عوام اور آزادی کے متوالوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ 

مشتاق احمد خان: غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں وحشیانہ نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ آج خاموش رہنے کا وقت نہیں ہے؛ جو بھی ان جرائم کے مقابلے میں خاموش رہے گا، وہ صہیونی غاصب حکومت کا شریک جرم ہوگا۔ ہمیں صہیونی مظالم اور نتن یاہو کے جرائم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ غزہ کا مسئلہ صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت اور بشریت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ آج عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ سڑکوں پر نکلے اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اس ظلم کو روکنے میں مؤثر کردار ادا کریں۔ 

ہم دنیا کے عوام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کاروانِ استقامت کی حمایت کریں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے کارکنان اپنے قلم کے ذریعے غزہ کے مظلوم عوام کی آواز دنیا تک پہنچائیں۔ خطبۂ جمعہ دینے والے ائمہ جمعہ اپنے بیانات میں اس ظلم اور کاروانِ استقامت کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں، اور سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ 

مہر نیوز: کیا آپ اس کاروان کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام کے لیے تیار ہیں؟ اور اگر کوئی واقعہ پیش آئے تو آپ اپنے حکمرانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ 

مشتاق احمد خان: جی ہاں، ہم طفل کش صہیونی حکومت سے کسی بھی قدم سے غافل نہیں رہیں گے اور ہم ہر ممکنہ صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ میں طوفان الاقصی کے ایک مہینے بعد پاکستان کے عوام کی انسانی امداد کے ذریعے مصر کے راستے غزہ کی سرحد تک پہنچا اور وہاں داخل ہونے کی کوشش کی۔ حتی کہ ہم نے مصر کے وزیر خارجہ سے درخواست کی کہ مجھے پاکستان کے عوام کی امداد کے ساتھ رفح گذرگاہ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے، لیکن اجازت نہیں دی گئی۔ اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ خدا نے مجھے یہ موقع دیا ہے کہ میں اس کاروان کے ذریعے غزہ میں داخل ہوسکوں۔ 

میں بطور پاکستانی شہری اپنی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر اس راستے میں مجھے گرفتار یا شہید کر دیا گیا، تو وہ فلسطین کے مسئلے میں فعال کردار ادا کرے اور غزہ کے مظلوم عوام پر جاری نسل کشی کو روکنے کی کوشش کرے۔ نیز اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو پاکستان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ذریعے میری رہائی کے لیے مذاکرات نہ کرے، کیونکہ اس طرح کے تعلقات کے ساتھ محمد علی جناح، بانی پاکستان، اور علامہ اقبال، مفکر پاکستان، کے جذبے کو تکلیف پہنچائیں گے۔

News ID 1935233

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha