12 اگست، 2025، 3:48 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

اندرونی زوال، بیرونی چیلنجز؛ کیا ٹرمپ کا نیشنل گارڈ فارمولا کارگر ہوگا؟

اندرونی زوال، بیرونی چیلنجز؛ کیا ٹرمپ کا نیشنل گارڈ فارمولا کارگر ہوگا؟

جرائم کی بڑھتی لہر، معاشی دباؤ اور عوامی بےچینی کے دور میں ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے؛ کیا یہ طاقت کا مظاہرہ واقعی مسائل کا حل ہے؟

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ میں اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے دوران داخلی بحرانوں کی ایک لہر چل رہی ہے، جس میں داخلی سیکورٹی، معیشت، عوامی اعتماد اور وفاقی اداروں کی کارکردگی جیسے مسائل شامل ہیں۔

صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں جرائم کی شرح کو بغداد اور پاناما سٹی جیسے شہروں سے بھی بدتر قرار دیا، جس کے بعد ملک میں جاری بحران پھر سے خبروں کی زینت بن گیا ہے۔ انہوں نے دارالحکومت میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی اور مقامی پولیس کو وفاقی کنٹرول میں دینے کو فوری حل قرار دیا؛ جو نہ صرف وفاقی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے درمیان گہری دراڑ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ امریکی سیاسی منظرنامے میں ایک نیا تنازع بھی کھڑا کرتا ہے۔

اسی دن امریکی وزیر دفاع پِیٹ ہگسٹ نے اعلان کیا کہ ہم واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ تعینات کریں گے، اور اگلے ہفتے یہ دستے سڑکوں پر ہوں گے۔

کیا طاقت کا استعمال معاشرتی بحران کا حل ہے؟

اگرچہ ٹرمپ کے بیانات حقیقت کا ایک پہلو ہیں، لیکن امریکہ اس وقت صرف سیکیورٹی بحران نہیں بلکہ ایک وسیع تر معاشی، سماجی اور سیاسی بےچینی سے دوچار ہے۔ سرکاری اداروں پر عوام کا عدم اعتماد، سیاسی اختلافات کی شدت اور شہریوں کی اطمینان میں کمی سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دارالحکومت کی سلامتی کا مسئلہ محض عارضی نہیں بلکہ اس کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں۔ یہ بحران دراصل ایک ایسی تدریجی زوال کا مظہر ہے جو ریاستی نظام کی ساکھ اور تاثیر کو چیلنج کر رہا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی آج دنیا کے دارالحکومتوں میں سیکیورٹی کے لحاظ سے ایک تشویشناک مقام پر آچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق، یہاں قتل کی شرح بغداد، پاناما سٹی، میکسیکو سٹی اور لیما جیسے شہروں سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا دارالحکومت، جو طویل عرصے سے ترقی یافتہ اور محفوظ ہونے کا دعویدار رہا ہے، ان شہروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکا ہے جنہیں دنیا میں بدامنی اور جرائم کے لیے جانا جاتا ہے۔

اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ واشنگٹن ڈی سی کی نسبتا کم آبادی کے باوجود، اس شہر میں قتل اور پرتشدد جرائم کی شرح اتنی بلند ہوچکی ہے کہ یہ دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہونے کے قریب ہے۔

جرائم صرف قتل تک محدود نہیں۔ مسلح ڈکیتی، سٹریٹ کرائمز، حملے اور منظم جرائم جیسے معاملات رہائشی علاقوں میں روزانہ رپورٹ ہورہے ہیں۔ 

ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ کیا آپ واقعی ایسے علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں؟ یہ بیان واشنگٹن ڈی سی میں بڑھتے ہوئے جرائم اور بدامنی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سیاحتی اور سرکاری علاقوں میں بھی گینگز اور جرائم پیشہ عناصر عناصر کا اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے۔

ٹرمپ کے بیانات کا سب سے متنازع پہلو واشنگٹن ڈی سی کا موازنہ بغداد اور پاناما سٹی جیسے شہروں سے کرنا تھا۔ وہ شہر جو برسوں سے جنگ، دہشت گردی اور منظم بدامنی کا شکار رہے ہیں۔ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ ان شہروں کے مقابلے میں واشنگٹن میں جرائم کی شرح دو سے تین گنا زیادہ ہے، جو نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

ٹرمپ کے مطابق، یہ معاملہ اب مقامی حکومت کی حد تک نہیں رہا بلکہ ایک قومی بحران بن چکا ہے، جس سے نہ صرف امریکہ کی داخلی سلامتی متاثر ہورہی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کا امیج بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسی لیے انہوں نے نیشنل گارڈ کو تعینات کرنے اور مقامی پولیس کو وفاقی وزارت انصاف کے تحت لانے کی بات کی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سختی سے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ کو داخلی سطح پر بیک وقت کئی بحرانوں کا سامنا ہے؛ معیشت کی زبوں حالی، سماجی عدم استحکام، صحت عامہ کا بحران اور ناقص حکومتی کارکردگی ملک کے استحکام کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں بڑھتے ہوئے جرائم سے ہٹ کر، امریکہ اس وقت داخلی بحرانوں کے ایک ایسے بھنور میں گھرا ہوا ہے جس نے ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی بنیادوں کو بری طرح متزلزل کردیا ہے۔ اس صورت حال نے امریکہ کے قومی استحکام اور عالمی ساکھ دونوں پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

معاشی زوال: سست رفتار ترقی، مہنگائی کی بلند شرح 

امریکی معیشت اس وقت فیڈرل حکومت کی پالیسیوں کے باعث دباؤ کا شکار ہے۔ درآمدی پابندیاں، تجارتی محصولات میں اضافہ، کرنسی پالیسیوں میں عدم استحکام اور فیڈرل ریزرو پر سیاسی دباؤ جیسے عوامل نے ترقی کی رفتار کو روک دیا ہے۔ وزارت محنت کے مطابق جولائی 2025 میں بے روزگاری کی شرح 4.2 فیصد تک پہنچ گئی جو دو سال کی بلند ترین سطح ہے۔ اسی مہینے صرف 73 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں، جو توقعات سے کہیں کم ہیں، جبکہ مئی و جون کے اعداد و شمار میں 250,000 سے زائد نوکریاں کم ظاہر کی گئی ہیں۔

سالانہ افراط زر کی شرح 2.8 فیصد اور مہنگائی 3.1 فیصد ہے، جو فیڈرل ریزرو کے ہدف سے زیادہ ہے۔ معاشی ماہرین اسے ایک خطرناک مہنگائی قرار دے رہے ہیں، جہاں معیشت کی ترقی رک جاتی ہے مگر مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔

سماجی بحران: عوام کا حکومت پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد

اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ، سماجی عدم اطمینان اور سیاسی پولرائزیشن بھی بڑھ رہی ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان اختلافات گزشتہ گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں شدید تر ہوچکے ہیں۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق، صرف 25 فیصد امریکی شہریوں کو یقین ہے کہ حکومتی پالیسیاں ان کی زندگی میں بہتری لارہی ہیں، جبکہ نصف سے زائد سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں ان کے لیے نقصان دہ ہیں۔

تحقیقی ادارے پیو کے مطابق، حکومت پر عوامی اعتماد 22 فیصد تک گرچکا ہے، جو تاریخ میں نچلے ترین سطوح میں سے ایک ہے۔ یہ بی اعتمادی عوامی احتجاج، سڑکوں پر مظاہروں اور حکومت مخالف تحریکوں کو بڑھا رہی ہے۔

صحت کا بحران: مہنگی انشورنس، کم ہوتی سہولتیں

حکومتی پالیسیوں کے باعث لاکھوں امریکی شہری مہنگی صحت انشورنس اور ناقص طبی سہولیات کا سامنا کر رہے ہیں۔ Affordable Care Act کے کئی شعبے محدود یا ختم کر دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے خاندان اور بزرگ افراد صحت کی سہولتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

قومی ادارہ برائے صحت انشورنس کے مطابق، 2025 میں چار افراد پر مشتمل خاندان کے لیے اوسط انشورنس لاگت 24,000 ڈالر سالانہ تک جاپہنچی ہے جو دو سال میں 18 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دواؤں اور طبی سہولیات کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس نے متعدد ریاستوں کو ایک عوامی صحت کے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے میں ناکامی: ٹیکساس کا تباہ کن سیلاب

جولائی 2025 میں ٹیکساس میں آنے والا شدید سیلاب، جس میں 135 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں مکانات تباہ ہوئے، وفاقی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بن گیا۔

کانگریس کی رپورٹ کے مطابق، FEMA کو عملے کی کمی، بجٹ میں کٹوتی اور بین ادارہ جاتی رابطے کی شدید کمزوریوں کا سامنا رہا۔ کئی علاقوں میں مدد کے لیے تاخیر اور ضروری وسائل کی عدم دستیابی کے باعث متاثرین کو مؤثر امداد نہیں مل سکی۔

غربت، طبقاتی تفاوت اور بےگھر افراد میں اضافہ

ملک کے جنوب اور وسطی صنعتی علاقوں میں غربت کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ آمدنی کے اعتبار سے نچلے اور اونچے طبقوں میں فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس معاشی تفریق نے نچلے طبقے کا معیار زندگی مزید گرا دیا ہے اور سماجی و سیاسی بےچینی میں اضافہ کیا ہے۔

اسی طرح، بےگھر افراد کی تعداد بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ وزارت ہاؤسنگ کے مطابق، 2025 میں 660,000 سے زائد افراد بےگھر ہوئے ے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

کیا ٹرمپ کی نیشنل گارڈ والی حکمت عملی ان تمام بحرانوں کا حل ہے؟

لیہ سب حقائق اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کو ایک نہیں بلکہ کئی محاذوں پر بیک وقت بحرانوں کا سامنا ہے؛ جن میں معیشت، سماجی ڈھانچے، صحت، قدرتی آفات اور سیاسی اعتماد شامل ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے محض نیشنل گارڈ کو سڑکوں پر لا کر ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش، شاید ظاہری نظم و ضبط تو قائم کرے، لیکن گہرے اور پیچیدہ نظامی مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں۔

News ID 1934808

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha