3 جولائی، 2025، 8:00 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

رفائیل گروسی اقوام متحدہ کی قیادت کے لیے خطرناک انتخاب کیوں؟

رفائیل گروسی اقوام متحدہ کی قیادت کے لیے خطرناک انتخاب کیوں؟

ایٹمی توانائی ایجنسی میں جانبدارانہ رویے، مغرب نوازی اور سیاسی عزائم نے گروسی کی غیر حیثیت کو مشکوک بنا دیا ہے؛ ایسے فرد کا اقوام متحدہ کی قیادت کا امیدوار ہونا عالمی سفارت کاری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوترش کی ممکنہ جگہ لینے کے امیدوار کے طور پر زیر غور آئے ہیں۔ تاہم ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں ان کے متعصبانہ اور سیاسی رویے نے انہیں ایک متنازع بلکہ خطرناک امیدوار بنا دیا ہے۔ عام قیاس آرائیوں سے ہٹ کر گروسی کی معاملے میں دلچسپی واضح اور کھلے بیانات کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی سربراہی کے لیے ان کا نام زیر غور ہے، اور اس پر وہ سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔

بعد ازاں واشنگٹن اور روسی خبر رساں ادارے تاس کو دیے گئے انٹرویوز میں انہوں نے اقوام متحدہ کی موجودہ ساخت پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اقوام متحدہ کی قیادت کے لیے اپنی کارکردگی کو بہترین مہم سمجھتے ہیں۔ یہ بیانات ان کے سیاسی عزائم اور بین الاقوامی سفارتکاری میں بڑے کردار کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔

ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام: گروسی کی سفارتی کمزوری کا سب سے نازک پہلو

گروسی کی ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق حالیہ کارکردگی کو کئی تجزیہ کار اقوام متحدہ کے اعلی عہدے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ ان کا رویہ تکنیکی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے غیر جانبداری کے اصولوں سے ہٹ کر مغربی ایجنڈے سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ ایران کے حکام اور علاقائی مبصرین کے مطابق گروسی نے کئی بار ایٹمی معاملات پر ایسی رپورٹس جاری کیں جن میں نہ صرف سائنسی تحقیق کی تصدیق شامل نہیں تھی بلکہ ان کا وقت بھی سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے چنا گیا تھا۔ 2023 اور 2024 میں یورینیم کے ذرات سے متعلق رپورٹس اس کی نمایاں مثالیں ہیں، جو ایران کے خلاف قرار دادوں سے قبل جان بوجھ کر منظر عام پر لائی گئیں۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں گروسی کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر نامزدگی محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو عالمی ادارے کی غیر جانب داری، خودمختاری اور اعتماد کو شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ رافائل گروسی کی ایران کے ساتھ متعصبانہ پالیسی نے نہ صرف ایٹمی توانائی ایجنسی کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ اس کے بعد ہونے والے جارحانہ اقدامات کو بھی سیاسی طور پر جواز فراہم کیا۔ حالیہ دنوں میں جب گروسی نے ایران کے تعاون میں کمی سے متعلق ایک متنازع رپورٹ جاری کی، تو اس کے ایک ہفتے کے اندر اندر صہیونی حکومت اور امریکہ نے ایران کی بعض ایٹمی اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر گروسی اور آئی اے ای اے کے خلاف ردعمل کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ آزاد ذرائع ابلاغ جیسے ’مڈل ایسٹ آئی‘ اور ’دی کرَیڈل‘ نے گروسی پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ایجنسی کو نیٹو کا انٹیلیجنس بازو بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ غیر وابستہ تحریک کئی رکن ممالک، بالخصوص لاطینی امریکہ اور افریقہ میں، یہ احساس شدت سے پایا جا رہا ہے کہ گروسی اب غیر جانب دار نگران کے بجائے مغرب کے سیاسی ایجنڈے کے فعال کردار میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

ایران نے اس صورتحال میں سخت موقف اپناتے ہوئے آئی اے ای اے سے تعاون معطل کر دیا اور معائنہ کاروں کی رسائی محدود کر دی۔ اس کے ساتھ ہی 2 جولائی کو صدر مسعود پزشکیان نے ایرانی آئین کی شق 123 کے تحت آئی اے ای اے سے تعاون معطلی کے قانون کو نافذ العمل بنانے کے احکامات جاری کیے۔ یہ قانون 25 جون کو پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور نگران کونسل کی توثیق کے بعد وزارت خارجہ، سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل اور ایٹمی توانائی ادارے کو ارسال کیا گیا۔

ایران اور دیگر حکومتوں کی طرف سے پائے جانے والے شدید عدم اعتماد کے برعکس، گروسی کو تاحال امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہی دوہری پوزیشن انہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے منصب کے لیے غیر موزوں بنا دیتی ہے۔ مغرب انہیں شفافیت کے محافظ کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ باقی دنیا انہیں مغربی مفادات کا نمائندہ تصور کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چین، روس، ایران، بھارت، جنوبی افریقہ اور اقوام متحدہ کے ترقی پذیر ممالک کے سب سے بڑے اتحاد گروپ 77 جیسے ممالک سے انہیں حمایت ملنا خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی سربراہی کے لیے غیر جانب داری بنیادی شرط ہے۔

گروسی، گوترش یا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے منصب کے ہم پلہ کیوں نہیں؟

ایرانی ایٹمی مسئلہ، جو گروسی کے لیے عالمی سطح پر ساکھ بنانے کا ذریعہ بن سکتا تھا، بالآخر ان کی مغرب پسندی کی علامت بن گیا۔ اسی باعث وہ نہ صرف آئی اے ای اے کی غیر جانب دار روایت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے، بلکہ عالمی سطح پر اختلافات اور بحران کا باعث بھی بنے۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق انہی سیاسی تنازعات اور وسیع تر بداعتمادی نے اقوام متحدہ کی قیادت کے لیے ان کے امکانات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

بظاہر رافائل گروسی ایک ماہر ایٹمی سفارت کار کے طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی دوڑ میں موزوں امیدوار دکھائی دے سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی قیادت کے لیے صرف تکنیکی مہارت کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے وسیع تر اخلاقی، انسانی اور سیاسی فہم و تجربہ لازمی ہے۔

موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوترش کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو گروسی کئی اعتبار سے پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔ گوترش نہ صرف پرتگال کے سابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی حیثیت سے عالمی سطح پر انسانی بحرانوں، جنگوں، مہاجرت، ماحولیاتی تبدیلی اور کثیرالجہتی نظام کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔

گوترش کی قیادت کی پہچان غیر جانب داری، وسعتِ نظر اور انسانی حقوق و سماجی انصاف کے مسائل میں مفاہمتی اور جامع رویہ ہے۔ اس کے برعکس گروسی کو نہ حکومتی سطح پر ایگزیکٹو تجربہ حاصل ہے، نہ انسانی یا سماجی میدانوں میں عملی کردار۔ ایران، شمالی کوریا اور یوکرین جیسے حساس معاملات میں ان کا جھکاؤ واضح طور پر مغربی طاقتوں کی طرف رہا ہے، جس سے ان کی غیر جانب داری پر سوالات اٹھے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کے انتخابی عمل میں ایک اور بڑی رکاوٹ گروسی کی غیر وابستہ ممالک میں غیر مقبولیت ہے۔ ایران کے حوالے سے ان کی سیاسی رنگ میں ڈوبی رپورٹس اور اسرائیلی جوہری پروگرام پر ان کی خاموشی نے ترقی پذیر دنیا میں ان کے بارے میں یہ تاثر مضبوط کیا ہے کہ وہ مغربی مفادات کے نمائندہ ہیں۔ جبکہ سیکرٹری جنرل کی تقرری میں سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریتی منظوری درکار ہوتی ہے، جو بغیر عالمی اعتماد کے ممکن نہیں۔

یقیناً گروسی ایک تربیت یافتہ بین الاقوامی مذاکرات کار ہیں اور مغرب کے ساتھ ہم آہنگی رکھنے والے سفارت کار بھی، لیکن وہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے قائد کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ یہ منصب صرف انتظامی مہارت نہیں بلکہ اخلاقی سرمایے، مکمل غیر جانب داری، پائیدار ترقی، عالمی امن اور انسانی حقوق کے گہرے شعور کا تقاضا کرتا ہے۔

گروسی کی یہ تمنا جو اب امریکا اور یورپی مفادات کا ساتھ دینے کے بعد عیاں ہو چکی ہے، کسی قابلِ عمل امکان کے بجائے ایک دور از قیاس خواب دکھائی دیتی ہے۔

News ID 1934071

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha