15 جولائی، 2024، 12:32 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

حضرت عباسؑ بصیرت اور ایمانداری میں بے نظیر تھے

حضرت عباسؑ بصیرت اور ایمانداری میں بے نظیر تھے

حضرت عباس علیہ السلام کے زیارت نامے کے مطابق اللہ کی عبادت اور اطاعت آپ کی نمایاں ترین خصوصیت تھی۔

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: آج نویں محرم کو عاشقان اہل بیت حضرت علمدارؑ کا غم مناتے ہیں۔ ائمہ کرام سے حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام کی کئی خصوصیات نقل ہوئی ہیں۔ آپ اپنی اعلی صفات میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک بصیرت ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ نافِذَ البَصیرَةِ، صَلبَ الإِیمانِ، جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِ اللّهِ الحُسَینِ علیه السلام، وأبلى بَلاءً حَسَناً ومَضى شَهیداً، ہمارے چچا عباس صاحب بصیرت اور مضبوط ایمان کے مالک تھے۔ انہوں نے حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اچھا امتحان دیا اور شہید ہوگئے۔ اس زمانے میں اکثر لوگوں نے یزید کی بیعت کی تھی۔ کوفیوں کی طرف سے امام حسین کی مدد اور فتح کی کوئی امید نہیں تھی۔ سب انتباہ کررہے تھے کہ یزید کے خلاف جنگ میں کودنے کی صورت میں زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں۔ غیرت دینی مردہ ہونے کی وجہ سے اہل خانہ کو بھی اسیر کیا جائے گا۔ 

اگر امام حسین علیہ السلام حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوتے تو اپنے والد گرامی کی طرح شدید مشکلات کا سامنا ہوتا کیونکہ لوگوں میں عدالت قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی۔ ظلم اور ناانصافی کے عادی ہوچکے تھے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ان حالات سے بخوبی واقف تھے لہذا آپ نے فیصلہ کیا کہ قیام کیا جائے اور عقل اور مظلومیت کے ساتھ شہادت کو گلے لگا کر لوگوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑا جائے۔

فطری بات ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام ان تمام باتوں اور حقائق کو عوام کے سامنے بیان نہیں کرسکتے تھے۔ ان حالات میں حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ آخری دم تک بصیرت دکھاتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا۔ یوم عاشور امام حسین علیہ السلام کی اجازت سے پہلے بھائیوں کو میدان جنگ میں روانہ کیا تاکہ ان کی شہادت کے غم میں صبر کریں اور ثواب میں خود بھی شریک ہوجائیں۔

آپ کی دوسری اہم خصوصیت راسخ العقیدہ ہونا ہے۔ نویں محرم کی رات کو شمر ذی الجوشن نے آپ کو امان نامہ پیش کیا اور ماں کی طرف سے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے بھانجا کہہ کر پکارا اور کہا کہ آپ کو امان نامہ پیش کررہا ہوں۔ کیوں خود کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہو۔ اَلزَموا طَاعَةَ أمیرِ المُؤْمِنینَ یَزِیدَ یزید کی بیعت کرو اور اپنی زندگی بچالو۔

فَقَالَ لَهُ العَبّاسُ (سَلَامُ اللهِ عَلَیه) تَبّاً لَکَ یا شِمر حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا: اے شمر! تم پر خدا کی لعنت ہو۔ اے دشمن خدا! کیا تم ہمیں اللہ کی اطاعت چھوڑ کر یزید کی بیعت کی دعوت دے رہے ہو۔ امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں آپ کے پاؤں نہیں لرزے۔

عاشورا کے دن حضرت عباس علیہ السلام کے لئے سخت حالات درپیش تھے۔ علمدار ہونے کی وجہ سے لشکر کا بھی خیال رکھنا تھا اور مسلسل خیموں کا دورہ کرکے اہل حرم اور بچوں کی ضرورت بھی پوری کرنا پڑتا تھا۔ آپ نے آخری دم تک کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔

روایت میں منقول ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کبھی بھی اجازت کے بغیر امام حسین علیہ السلام کے سامنے نہیں بیٹھتے تھے۔ جب بیٹھتے تو زانو خم کرکے ادب سے بیٹھتے۔ روایت میں منقول ہے کہ 34 سالہ عمر میں کبھی بھی آپ نے امام حسین علیہ السلام کو بھائی کہہ کر نہیں پکارا بلکہ ہمیشہ سید، سردار، مولا، آقا، فرزند رسول خدا جیسے الفاظ سے پکارا فقط آخری وقت میں جب گھوڑے سے گرے تو صدا دی کہ یا اخا ادرک اخاک بھائی اپنے بھائی کی مدد کو آجائیے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ عباس نے بھائی کی مانند اپنا وعدہ پورا کیا اور بھائی کا ساتھ نبھایا ہے۔

اللہ کی بندگی اور اطاعت آپ کی ایک اور خصوصیت تھی۔ آپ کے زیارت نامے میں پڑھتے ہیں کہ السلام علیک ایها العبد الصالح المطیع لله و لرسوله و لأمیرالمؤمنین والحسن والحسین صلی الله علیهم و سلّم گویا اللہ کی بندگی اور اطاعت کے ذریعے حضرت عباس علیہ السلام نے رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔

News ID 1925417

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha