مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشہور صہیونی صحافیوں میں سے ایک رونین برگمین نے تل ابیب اور مزاحمت کے درمیان تبادلے کے معاہدے کے بارے میں روزنامہ Yediot Aharonot میں موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اب ان شرائط پر راضی ہوجانا چاہیے جنہیں اس نے پہلے مسترد کر دیا تھا، جب کہ چند مہینوں پہلے اس سے بہتر معاہدہ ممکن تھا۔ بلاشبہ جنگ کا جاری رہنا قیدیوں کی ہلاکت کا باعث بنے گا۔ فی الحال، وہ یہ بہانہ کر رہے ہیں کہ رفح میں آپریشن قیدیوں کی واپسی کا باعث بنے گا۔ جب کہ اس کے برعکس رفح میں آپریشن جنگ کے پھیلاو کا باعث بنے گا جس سے خوف اور بے یقینی کی لہر میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے نیتن یاہو پر قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں بفر پلان اور اس کارروائی کی مضبوط ترین حامیوں میں سے تھی، لیکن اس نے اپنا موقف تبدیل کیا اور غزہ کی پٹی کے مرکز میں واقع آئسولیشن زون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا!
وزیر گیلنٹ نے خان یونس پر حملے سے قبل کہا تھا کہ اس حملے کا مقصد قیدیوں کی واپسی اور یحیی السنوار سمیت حماس کے رہنماؤں کو شکست دینا ہے لیکن حملے کے بعد حماس کے موقف اور جنگی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور فوجی دباؤ کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کا دعویٰ مضحکہ خیز ثابت ہوا۔
برگمین نے اعتراف کیا کہ اس وقت تل ابیب مشکل میں ہے حماس نہیں۔ کیونکہ معاہدے کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ جنگ کے آغاز سے ہی نیتن یاہو نے یہ بہانہ بنایا ہے کہ فوجی دباؤ قیدیوں کی واپسی کا باعث بنے گا، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ یہ ایک وہم سے زیادہ کچھ نہیں کہ رفح میں آپریشن، حماس کی مکمل شکست اور قیدیوں کی واپسی کا سبب بنے گا۔ اگر فوج رفح پر حملہ کرتی ہے تو شاید ہمارے پاس کوئی قیدی زندہ نہ رہے، اور پھر نیتن یاہو کے پاس اسرائیلیوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔
آپ کا تبصرہ