28 اپریل، 2024، 12:53 AM

ہم امریکیوں کی نقل بھی نہیں کرسکتے !!!

ہم امریکیوں کی نقل بھی نہیں کرسکتے !!!

حیرت اس بات کی ہے ان غیر مسلم اور لبرل ممالک میں غاصب صیہونیوں کے ہاتھ مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف جو سرگرمیاں نظر آرہی ہے وہ اکثریت مسلم ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک-شریف ولی کھرمنگی: غزہ میں صیہونی بربریت اور نسل کشی کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ امریکا و یورپ کی سڑکوں اور ایوانوں میں تو نظر آرہی تھی، گزشتہ چند ہفتوں میں اسکا ایک نیا رخ سامنے آیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں طلبہ نے اس نسل کشی اور امریکی و مغربی حکومتوں کیطرفسے غاصب صیہونی ریاست کی اسلحہ و ہتھیاروں کیساتھ مسلسل امداد کو روکنے کے مطالبے کیساتھ نیا طرز اپنایا اور شدت اس وقت نظر آئی جب 17 اپریل کو یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کو پکڑنے کیلئے انتظامیہ اور پولیس کو بلانا شروع کردیا۔ یونیورسٹی نے طلبہ کو سسپینڈ کردیا، پولیس نے گرفتار کرلئے، رکن کانگرس الہان عمر کی بیٹی بھی ان میں شامل ہے۔ یہاں سے احتجاجات کا سلسلہ کولمبیا یونیورسٹی سے بڑھ کر دوسری بڑی جامعات تک پھیلتا گیا۔ طلبہ کیساتھ پروفیسرز اور فیکلٹی ممبرز بھی احتجاجات میں شریک ہوئے۔ کلاسوں کو پہلے آنلائن کردیا گیا کیونکہ فزیکل کلاسوں کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا، پھر سینکڑوں فیکلٹی ممبران کی طرف سے احتجاج میں شرکت اور کلاسوں سے بائیکاٹ نے آن لاین کلاسوں کو بھی متاثر کردیا۔ 

کولمبیا کی سربراہ نعمت شفیق، جو خود ایک مصری نژاد مسلمان خاتون ہیں وہ اس معاملے کو سنبھالنے سے مکمل قاصر نظر آئی۔الٹا انہوں نے طلبہ پر یہودیوں کیساتھ تعصب اور ہراسمنٹ کا الزام بھی لگادیا جسے احتجاج میں شریک یہودی طلباء نے ہی مسترد کردیا۔ انکی دیکھا دیکھی امریکی صدر بھی صیہونیوں کے ساتھ تعصب کی مذمت پر اتر آئے۔ جس کے بعد یہ ایشو مزید عالمی سطح پر اٹھایا جانے لگا۔ جبکہ بڑی نامور یونیورسٹیوں میں ان مسلسل اور بڑھتے ہوئے احتجاجات کے بعد اب امریکی قانون ساز کولمبیا یونیورسٹی کے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتا نظر آرہا ہے۔ 

ان احتجاجات میں واضح طور پر مسلم، غیر مسلم امریکی و دیگر، عرب، افریقی اور ایشیائی و یورپی طلبہ سمیت یہودی طلبہ اور طلبہ گروپس کی بھرپور شرکت نے بہت موثر اور اہم ثابت کیا ہے۔ ریاستی انتظامیہ سے لیکر ایوان نمائندگان اور عالمی سطح پر اٹھانے جانے لگا ہے۔ 

اسوقت اہم ترین اور بڑی جامعات جو ان احتجاجات کا بھرپور حصہ بن چکی ہیں ان میں Yale University, MIT, Emerson College, University of North Carolina, New York University, Universiry of Southern California,  Ohio State University, Princeton University, University of Arizona, Michigan, Kansas, Maryland, Minnesota, Navada, Pittsburgh, Rochester, Texas University, California State Polytechnic University, Harvard University, Minnesota University,  سمیت 35 سے زیادہ بڑے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ اور اسکا دائرہ کار، تندی اور اشتعال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ 

حیرت اس بات کی ہے ان غیر مسلم اور لبرل ممالک میں جو تندی اور غاصب صیہونیوں کے ہاتھ مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف سرگرمیاں نظر آرہی ہے وہ اکثریت مسلم ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایران، یمن، مصر اور ترکی میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ لیکن انکا اتنا دائرہ کار اور تسلسل نظر نہیں آیا جتنا مغربی ممالک اور خصوصا امریکا میں اسوقت نظر آرہا ہے۔  پاکستان میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے، مگر یہاں تو حکومت اور انتظامیہ سمیت میڈیا نے بھی ان احتجاجات کی کوریج کو دبانے کو اپنی اہم ترین ذمہداری سمجھ لی۔ انکا گلہ دبا دیا گیا۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں نے ان پر پروگرامز کرنا تو دور کی بات، ٹھیک سے اٹھایا بھی نہیں گیا۔ یونیورسٹی سطح پر جو تندی امریکی یونیورسٹیوں میں نظر آرہا ہے، ہمارے ملک کی جامعات میں کہیں چھوٹی حرکت بھی نظر نہیں آئی۔ کوئی طلبہ تنظیم نکلی نا فیکلٹیز، حالانکہ ہر حرکت میں ہمارے تعلیمی اداروں میں امریکی یونیورسٹیوں کی مثالیں دینا لازمی نظر آتا ہے۔ مگر 34 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کی مظلومانہ نسل کشی غیر مسلم معاشرے کے لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہوگیا مگر ہم مسلمان بت بن کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری اخلاقیات اور تعلیم و تربیت کے اوپر بہت بڑا سوالیہ نشان نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ 

امریکی یونیورسٹیوں میں ان غیر روایتی اور مسلسل احتجاجات میں اہم کردار سوشل میڈیا کا نظر آرہا ہے۔ حالیہ دنوں اس بابت جو پیش رفت سامنے آئی وہ امریکا میں "ٹک ٹاک" پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی سے بھی ثابت بھی ہورہی ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر امریکی بیانیے کا غلبہ ہے۔ سب جانتے ہیں۔ فیس بک، یوٹیوب اور ایکس(ٹویٹر) جسکا نام اور شکل پسند نہیں کرتا اس سے متعلق پوسٹ بھی کرنے نہیں دیتے، تصویر تک لگنے نہیں دیتا، اکاؤنٹ ہی بلاک کردیا جاتا ہے، چینل غایب کیا جاتا ہے، کیونکہ امریکہ بہادر انکو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ تو صیہونی نسل کشی پر عام لوگوں تک حقائق پہنچانے دینے کی توقع ممکن نہیں۔ دوسری طرف چائنیز سوشل میڈیا ایپ "ٹک ٹاک" اور روسی ساختہ "ٹیلی گرام" پر ایسی قدغن نہیں لگ سکتی، ان پر مواد صارف کی مرضی سے لگتی ہے۔ جسکی وجہ سے انکا اثر نظر آرہا ہے۔ ایک امریکی پروفیسر حالیہ احتجاجات میں ٹک ٹاک کے کردار کی بات کہہ رہے ہیں کہ امریکا کے پانچ بڑے ٹیلی ویژنز سے زیادہ تعداد ٹک ٹاک پر فلسطین اور غزہ سے متعلق مواد دیکھے گئے۔ یعنی جو چیزیں میڈیا پر سینسر کا شکار کردی جاتی ہے، یونیورسٹی طلبہ اور عوام وہی چیزیں ٹک ٹاک پر دیکھ رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق امریکا میں 170 ملین لوگ ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ اب اس پر پابندی کیلئے کانگریس نے بل پاس کرلیا اور صدر بائیڈن نے بھی دستخط کردیئے ہیں۔ یعنی اب امریکا میں آزادی اظہار رائے والا شوشا تمام شد ہوچکا ہے۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ ان بڑی امریکی جامعات سے پھوٹی سونامی کہاں تک جاتی ہے۔ کوئی اس اہم پیش رفت کو الیکشن کیلئے استعمال کر پاتا ہے، ایران اور مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال کر اسکی ہئیت تبدیل کر لیا جاتا ہے، یا ان احتجاجات میں کئے جارہے مطالبات کے تحت امریکی انتظامیہ اور حکومت صیہونیوں کی ہر بربریت کا دفاع واجب سمجھنے سے کچھ حد تک باز آسکتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائیگا۔ البتہ مسلمان ممالک، مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں، ان یونیورسٹیوں کی طلبہ تنظیمیوں اور بغیر تنظیم والے طلبہ سمیت سوشل میڈیا پر مغربی پراپیگنڈہ کو بڑھاوا دینے والی مشینری بننے والوں کیلئے ان میں درس موجود ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کیلئے بھی یہ درس ہے، کہیں شاہین بچوں کو خاک بازی کا سبق تو نہیں دے رہے؟

جب انسان کشی پر پردہ ڈالا جارہا ہے، عالمی طور پر اس بربریت کے خلاف اقدام کرنے والوں کو دبانے اور انکی آواز بننے سے روکا جارہا ہے اور حکومتی سطح پر اربوں ڈالر اس نسل کشی کی حمایت میں دیا رہا ہے، ایران، شام، یمن کے علاؤہ اکثر مسلم ممالک بالخصوص تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے، ایسے میں ان نامور امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور فیکلٹی نے ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی بڑی یونیورسٹیوں کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں، یہ ادارے واقعا بڑے کہلانے کے قابل ہیں۔ ہماری کالج یونیورسٹی کے طلبہ ان سے سیکھ نہیں سکتے تو کم از کم باخبر تو رہا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاں انکی نقل نہیں کرسکتے، اپنی حکومتوں کو یہ پیغام نہیں دے سکتے تو کم از کم رائے عامہ تو بنایا جا سکتا ہے۔ 

News ID 1923618

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha