3 نومبر، 2025، 12:03 PM

سوڈانی مبصر کی مہر نیوز سے گفتگو:

سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے

سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے

سوڈانی تجزیہ کار نے ملک میں جاری خانہ جنگی کو مغربی پالیسیوں کا تسلسل، سونے کی کانوں پر قبضے کی کوشش اور حماس کی حمایت کی سزا قرار دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سوڈان مشرقی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے، گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ 2019 میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد عوام کو جمہوری تبدیلی کی امید تھی، لیکن طاقت کی کشمکش نے ملک کو مزید انتشار میں دھکیل دیا۔ اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور نیم فوجی گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ لڑائی دارالحکومت خرطوم سے لے کر دارفور تک پھیل چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 86 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں نے ملک کو انسانی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے، جبکہ کئی علاقے قحط کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے، جہاں تین کروڑ سے زیادہ افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔

اس بحران کے پیچھے صرف داخلی طاقت کی کشمکش نہیں بلکہ بیرونی مداخلت بھی کارفرما ہے۔ بعض علاقائی طاقتیں مختلف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں تاکہ اپنے معاشی مفادات حاصل کرسکیں۔ خاص طور پر سونے کی کانوں اور بحیرہ احمر کے قریب جغرافیائی محلِ وقوع نے سوڈان کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔ ممتاز سودانی تجزیہ کار ناصر ابراہیم نے انکشاف کیا ہے کہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے پیچھے بیرونی قوتوں کے معاشی و سیاسی عزائم کارفرما ہیں۔ ان کے مطابق، امارات اور اسرائیل سودان کے اندرونی خلفشار کو ہوا دے کر سونے کی کانوں پر قبضہ اور ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہر نے کہا کہ امارات کی جانب سے ریپڈ سپورٹ فورسز کی پشت پناہی اور اسرائیل کی خفیہ سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دونوں طاقتیں سوڈان کو کمزور کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوڈان کی دولتِ ارضی اور جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔

ذیل میں مہر نیوز کے ساتھ ان کی گفتگو کا متن پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: فاشر شہر کا سقوط انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی علامت ہے۔ صرف تین دنوں میں 1500 سے زیادہ عام شہری مارے گئے، جن میں زیادہ تر ماسالیت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات صرف داخلی مسائل تک محدود نہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی ان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ براہ کرم بحران کی داخلی جڑوں اور بیرونی کرداروں کے اثرات پر روشنی ڈالیں۔  

ناصر ابراہیم: مختصرا عرض کروں تو جی ہاں، فاشر شہر ریپڈ سپورٹ فورسز کے قبضے میں آگیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور بدقسمتی سے نسلی صفایا جاری ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے مذہب، زبان اور رنگِ جلد کی بنیاد پر قتل کیے جارہے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ (ریپڈ سپورٹ فورسز) عرب امارات کی حمایت سے سرگرم ہے اور کھلے عام قتل عام کر رہا ہے۔ اس میں صیہونی حکومت بھی شریک ہے۔ لیبیا میں حفتر کا گروہ اور وسطی افریقی جمہوریہ میں چاڈ کی حکومت بھی اس گروہ کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ لہذا جو کچھ فاشر میں ہورہا ہے وہ صرف اسی شہر تک محدود نہیں بلکہ سوڈان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔  

بیرونی اور اندرونی دونوں کردار سوڈان کی حالیہ پیش رفت میں یکساں رویہ دکھا رہے ہیں، جس کے باعث صورتحال نہایت سنگین ہوگئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، سوڈان میں ایک "فریم ورک معاہدہ" موجود تھا جسے ریپڈ سپورٹ فورسز نے فوج پر مسلط کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے اسے قبول نہیں کیا۔ اسی وجہ سے امارات نے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایک بغاوت کی منصوبہ بندی کی اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی، مگر فوج نے اس بغاوت کو مسترد کر دیا اور مزاحمت کی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے خانہ جنگی کو جنم دیا۔  

بدقسمتی سے، 2023 سے سوڈان خانہ جنگی میں مبتلا ہے جو ایک انسانی المیہ ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورسز عربی نظریہ رکھتی ہیں اور غیر عرب سوڈانیوں کو اقلیت سمجھتی ہیں، انہیں سیاسی یا معاشی حقوق دینے پر تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، سوڈان کو عرب بنانے کی اس پالیسی کے نتیجے میں آج یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، اور فوج اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔  

مہر نیوز: سوڈان کی اہمیت مداخلت کرنے والے ممالک کے لیے کیوں بڑھ گئی ہے؟  

ناصر ابراہیم: سوڈان کے حالات میں عرب امارات کی مداخلت سب پر واضح اور ثابت ہے۔ بڑی تعداد میں ڈرونز دہشت گردوں کے ہاتھ لگے ہیں، اسی وجہ سے ریپڈ سپورٹ فورسز کو حالیہ جھڑپوں میں برتری حاصل ہے۔ عرب امارات کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی ایک وجہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ملک وہ مشن انجام دے رہا ہے جو مغرب نے اس کے سپرد کیا ہے اور وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان سے نکالے جانے والے سونے کی کانوں پر کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ، اسے سوڈان کو عربی رنگ دینے (عربی‌سازی) کے منصوبے کا تسلسل بھی کہا جاسکتا ہے۔ عرب امارات بظاہر عربوں کے حقوق کا حامی بن کر سامنے آیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ نسلی اور آبادیاتی صفایا ہے۔ امارات کا مقصد سوڈان کے تمام وسائل پر قبضہ اور وہاں اپنی طاقت کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ صورتحال صرف امارات تک محدود نہیں، بلکہ مغربی طاقتیں اور خاص طور پر صیہونی حکومت بھی ان واقعات کے پیچھے موجود ہیں۔ یہ واقعات صرف سوڈان تک محدود نہیں رہنے چاہییں؛ لیبیا، تیونس، لبنان، عراق اور یمن میں جو کچھ ہوا ہے، اسے دیکھنا سوڈان میں جاری حکمتِ عملی کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ مرکزی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے ٹکڑوں میں بانٹنے اور اندرونی تفرقہ پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔  

مہر نیوز: عالمی برادری کی جانب سے سوڈان کے حالیہ واقعات پر ردِعمل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟  

ناصر ابراہیم: حال ہی میں سوڈان میں ایک نعرہ عام ہوا ہے: سوڈان کا کوئی دوست نہیں سوائے سوڈان کے۔ اس جملے کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہے کہ کوئی بھی حکومت سوڈان کی حمایت نہیں کررہی۔ عالمی برادری کا ردِعمل زیادہ تر میڈیا تک محدود رہا ہے۔ تاہم، اگر ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کا رہنما تسلیم کر لیا جائے تو یہ سفارتی توازن کو بدل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں، جو کہ اس کی عالمی سطح پر تنہائی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ لہٰذا، فاشر میں ہونے والا قتل عام غزہ کی صورتحال سے مشابہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوڈان میں قتلِ عام کے ذمہ داروں کے خلاف ردعمل بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ غزہ میں قتلِ عام پر بین‌المللی ردِعمل سامنے آیا۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں (NGOs)، خاص طور پر مغرب میں، عرب امارات کی مخالفت کر رہی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بین‌الاقوامی سطح پر پابندیوں کی کوششیں شروع ہو رہی ہیں۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ امارات کا اس میدان میں کوئی مستقبل نہیں اور وہ ایک ناکام کردار ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے جس طرح ایران کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی طرح سوڈان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمارا اور سوڈان کا مقدر ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔  

مہر نیوز: سوڈان کی موجودہ صورتحال اور لڑنے والے گروہوں کو دیکھتے ہوئے بحران کا ممکنہ حل، مستقبل کے امکانات اور متوقع منظرنامے کیا ہوسکتے ہیں؟

ناصر ابراہیم: بیرونی ممالک مرکزی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور سوڈان میں دو ریاستیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے وہ سوڈان کو کمزور بنا کر اسے خطے کی صورتِ حال سے الگ ایک نحیف اور گوشہ نشین ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ سوڈان کبھی حماس کا بنیادی حامی تھا، اسی وجہ سے اسے صہیونیوں کی جانب سے سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، امارات سوڈان میں جمہوریت یا انتخابات نہیں چاہتا۔ ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ محمد حمدان دقلو کا خاندان سوڈان پر حکمران کی حیثیت سے اپنی جگہ پکی کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ لہذا، ان کا منصوبہ سوڈان کو ٹکڑوں میں بانٹنا، اسے دو ریاستوں میں تقسیم کرنا اور اسے افراتفری میں دھکیلنا ہے تاکہ سوڈان کمزور ہوکر خانہ جنگی میں گرفتار رہے۔

حل کے بارے میں، میں تاکید کرنا چاہوں گا کہ سفارتی حل ہمیشہ اہم ہوتے ہیں؛ تاہم ہم ان کی توقع نہیں رکھتے، کیونکہ یہ اقدامات عالمی جہت رکھتے ہیں۔ سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس خطے کے بارے میں مغرب اور امریکہ کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس لیے ہدف ملک کی تقسیم، اس کی سماجی کمزوری اور اقتصادی بدحالی ہے۔ یہ عمل سوڈان کو ایک ناکام ریاست میں بدلنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔

News ID 1936270

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha