8 اکتوبر، 2025، 4:06 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ میں دو سالہ نسل کشی: اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی بھیانک تاریخ

غزہ میں دو سالہ نسل کشی: اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی بھیانک تاریخ

اسرائیلی رژیم نے پچھلے دو سال کے دوران غزہ میں زیادہ سے زیادہ تباہی اور قتل عام کے لیے جدید اور بے مثال ہتھیار استعمال کیے ہیں، جس کے نتیجے میں بے سابقہ جرائم انجام پائے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: جیسے ہی آپریشن «طوفان الاقصی» 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوا، فوراً واضح ہو گیا تھا کہ اسرائیلی رجیم غزہ میں سابقہ جھڑپوں سے مختلف طرزِ عمل اختیار کر چکی ہے۔ اس کی کارروائیوں میں متاثرین کے حوالے سے کوئی ملاحظه یا اعتدال نظر نہیں آیا۔

8 اکتوبر کی صبح تقریباً دس بجے، اسرائیلی جنگی طیاروں نے متعدد فضائی حملوں کے ذریعے غزہ کی الترنس چورنگی پر واقع پانچ رہائشی عمارتوں کو تباہ کیا۔ یہ جبالیا کیمپ کا سب سے گنجان علاقہ ہے۔ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا کہ ہدف اسیر فوجیوں کا ایک گروہ اور دیگر فلسطینی تھے، تاہم بطورِ ضمنی نقصان تقریباً ۲۵۰ شہریوں کے شہید یا زخمی ہونے اور درجنوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں آئیں۔

اِسی سنگین کاروائی کے ایک ماہ بعد، 12 نومبر کی شام، جب خاندانوں کے سلسلہ وار قتل کا سلسلہ جاری تھا تو قابض فوج نے اپنی پہلی اور سب سے بڑی اجتماعی قتلِ عام انجام دیا۔ الزیتون محلہ میں واقع «الاہلی المعمدانی» ہسپتال کے صحن کو بھاری دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں رپورٹوں کے مطابق 471 شہری شہید ہوئے۔

بعد ازاں، 31 نومبر 2023 کو جنگی طیاروں نے جبالیا کے شمال میں آباد السنایده کے علاقہ پر سات ٹن دھماکہ خیز مواد پھینکا۔ اس حملے میں تقریبا 400 شہری شہید، ہزاروں زخمی اور سینکڑوں افراد گمشدہ قرار پائے؛ متعدد خاندان، بشمول خاندانِ ابونصر، ابوالقمصان، حجازی، مسعود، البھنساوی اور عکاشہ برباد ہو گئے۔

غزہ میں صہیونیوں کے بڑے جرائم کی فہرست

پہلے سال کے دوران یہ بڑے انسانی قتل عام معمول بن گئے؛ اسی سال دس بڑے قتل عام درج ہوئے جن میں خصوصاً 18 نومبر 2023 کو «تل الزعتر» اسکول اور «الفاخوره» اسکول پر حملے شامل تھے جہاں قریباً 200 افراد ہلاک ہوئے۔ درج ذیل واقعات اس دوران نمایاں رہے:

16 دسمبر 2023: اس دن «کمال عدوان» ہسپتال پر بڑا حملہ ہوا اور ساتھ ہی شمالی غزہ میں بیت لاهیا کیمپ پر بولڈوزرز نے درجنوں خیموں کو روند دیا جس میں سینکڑوں آوارگان زیرِ خاک آ گئے۔

24 دسمبر 2023: اس دن المغازی کیمپ میں ایک رہائشی کمپلیکس پر حملہ ہوا جس میں تقریباً 70 افراد شہید ہوئے۔

2024 کا آغاز ہوتے ہی النابلسی چوک پر سینکڑوں ایسے بھوک زدہ مفلوک الحال انسانوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا گیا جب یہ لوگ آٹا لینے کے لئے جمع ہوگئے تھے۔ 

مارچ 2024 کے آخر میں «الشفاء» ہسپتال پر حملہ ہوا جس میں تقریباً 300 افراد شہید ہوئے۔

غزہ شہر کے مرکز میں واقع النصیرات کیمپ پر بڑے پیمانے کا حملہ جس میں قریباً 240 نہتے لوگ شہید ہوئے۔

13 جون 2024 کو المواصی پر حملے میں قریباً ۹۰ افراد شہید ہوگئے۔

10 ستمبر 2024 کو مسجدِ التابعین پر حملہ کیا گیا جس میں نمازِ فجر کے دوران 100 افراد نہتے نمازی شہید ہوئے۔

29 اکتوبر 2024 کو خاندانِ ابونصر پر حملہ ہو جس میں ایک ہی خاندان کے 270 افراد شہید ہوئے۔

غزہ میں دو سالہ نسل کشی: اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی بھیانک تاریخ

غاصب صہیونیوں کا اہداف بینک

ابتدائی مہینوں میں قابض فوج اپنے قتلِ عام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتی رہی، مگر بعد ازاں اس نے جواز پیش کرنے کی زحمت بھی ترک کر دی۔ اوائلِ جنگ میں فوج نے ایک "اہداف بینک" تیار کیا جس میں مصنوعی ذہانت اور انسانی انٹیلی جنس دونوں کا امتزاج شامل تھا۔ اس بینک کا باعثِ تشویش پہلو یہ تھا کہ جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد اس فہرست میں شامل کیے گئے، جن میں نمایاں نکات یہ ہیں:

1. طوفان الاقصی کے تمام شہداء کے خاندانوں کو ہدف بنانا

2. شہریوں کے موبائل کیمرے سے حاصل شدہ ویڈیوز اور تصاویر کا تجزیہ اور اس میں دکھائی دینے والے غیر مسلح یا مسلح افراد جنہوں نے آپریشن میں حصہ لیا یا جشن منایا، ان سب کے خاندانوں کو نشانہ بنانا۔

3. ہر اس سم کارڈ کی ٹریکنگ جو غزہ کے اطراف یا صلاح الدین اسٹریٹ کے چند سو میٹر کے اندر موجودگی کا ریکارڈ رکھتا ہو۔

4. آپریشن میں شریک ہو کر زندہ واپس آنے والے افراد کو قتل کرنا۔

نسل کشی کے تباہ کن اعداد و شمار

آج تک شہداء کی تعداد 67 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 18592 بچے، 12400 خواتین اور 4477 بزرگ شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ 17000 ہزار سے زائد زخمی درج ہیں جن میں 4500 افراد کے اعضاء کاٹ دیے گئے — جن میں 800 بچے اور ۴۵۰ خواتین شامل ہیں۔ متاثرہ افراد کا مختلف پیشوں اور گروہوں سے تعلق اس امر کی دلیل ہے کہ یہ کارروائیاں محض جنگی روایات سے آگے جا کر شہری آبادی کو وسیع پیمانے پر نشانہ بناتی ہیں: 252 صحافی، 1411 طبی عملہ، 800 تعلیمی عملہ اور 203 اقوام متحدہ کے عملے اس میں شہید ہو چکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نسل کشی بذاتِ خود ایک منصوبہ بندی شدہ ہدف رہی ہے۔ درحقیقت 14 نومبر 2024 کو اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات میں اس جنگ کو شہداء اور زخمیوں کی وسیع تعداد کی بنیاد پر "نسل کشی" قرار دیا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکام واضح طور پر ایسی پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں فلسطینی بنیادی زندگی کی ضروریات — خوراک، پانی اور ایندھن — سے محروم ہو گئے، اور انسانی امداد میں غیر قانونی مداخلت نے یہ ظاہر کیا کہ امدادی ذرائع کو سیاسی و فوجی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔

غزہ میں دو سالہ نسل کشی: اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی بھیانک تاریخ

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ نے 14 نومبر 2024 کو اسرائیل کے جرائم کی تفتیش میں تل ابیب کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا، جو بعض معاملات میں کم از کم انسانی مداخلت کے ساتھ ہدایات جاری کرنے کے مترادف تھا۔ رپورٹ نے دستاویزی طور پر نوٹ کیا کہ اکتوبر 2023 تا جنوری 2024 کے ابتدائی تین ماہ میں اسرائیل نے 25 ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد استعمال کیا — جو کہ جاپان پر گرائے گئے ایٹمی بموں دو گنا بموں کی طاقت کے مساوی ہے۔

غزہ کے انفراسٹرکچر کی وسیع تباہی

اگرچہ انسانی جانی نقصان سب سے دردناک پہلو ہے، مگر نسل کشی کا دائرہ کار اور تباہی اس سے بھی وسیع ہے۔ اس جنگ کی نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ قابض فوج نے جان بوجھ کر غزہ کے شہروں اور محلوں کا منظم اور مسلسل انہدام کیا۔ ہاآرتص نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے بڑی تعمیراتی کمپنیاں متحرک کر رکھی ہیں تاکہ غزہ کو آئندہ برسوں کے لیے غیر قابلِ سکونت بنایا جا سکے۔ سینکڑوں بولڈوزر اور بھاری مشینری کام کر رہی ہیں تاکہ شہری ڈھانچہ ختم کیا جا سکے۔

اس روزنامے کے مطابق فوجی اداروں نے ہر تین منزلہ عمارت کے انہدام کے عوض آپریٹرز کو 750 ڈالر اور پانچ منزلہ یا اس سے بلند عمارت کے لیے 1500 ڈالر تک کی ادائیگی کا حکم دیا۔ جنگ کے دو سال بعد یہ منظم تباہ کاری غزہ کے شہری انفراسٹرکچر کو تقریباً 80 فیصد مٹا چکی ہے۔ تاریخی شہروں اور علاقوں — رفح، خان یونس، بیت حانون، بیت لاهیا، جبالیا کیمپ اور شہر جبالیا سمیت شیخ رضوان، شجاعیہ، زیتون اور التفاح کے وسیع علاقے — اور ساتھ ہی بنیادی انفراسٹرکچر، سڑکیں، سرکاری ادارے، پانی کے نظام، کنویں اور سیوریج نظام زمین بوس ہو چکے ہیں۔

قابض فوج نے تعلیمی شعبے کو بھی تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا؛ رپورٹ کے مطابق 204 اسکول اور 14 یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں جبکہ 305 تعلیمی ادارے کو جزوی یا شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح 36 طبی مراکز بشمول 10 بڑے ہسپتال تباہ کر دیے گئے۔جن میں شہرِ غزہ کا «الشفاء» کمپلیکس اور شمالی غزہ کے «انڈونیشیا» اور «کمال عدوان» اسپتال شامل ہیں۔

نسل کشی میں استعمال ہونے والے نئے ہتھیار اور طریقے

دو سالہ اس تنازع میں قابض فوج نے ایسے جدید آلات بروئے کار لائے جو جدید جنگوں میں پہلے عام نہیں تھے۔ اب ٹینک، جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر کے ساتھ ساتھ کوادکوپٹر طرز کے مسلح ڈرون بھی شامل ہیں۔ ان کا استعمال گولہ باری، دھماکہ خیز بموں کے پھینکنے اور حتیٰٰ کہ خود کو بم بنا کر ہجوم میں پھٹنے تک کے مشنز کے لیے کیا گیا۔

یہ ڈرون سب سے زیادہ مہلک اور کارآمد ثابت ہوئے کیونکہ ان کے ذریعہ قابض فوج نے شہروں پر مسلسل قابو قائم رکھا اور باسیوں کی واپسی کو بھی روکا۔ انہیں نفسیاتی جنگ کے آلہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا — رات کے اوقات میں خوفناک آوازیں پیدا کرنا، دھمکی آمیز پیغامات پہنچانا اور شہریوں میں دہشت پھیلانا شامل ہے۔

غزہ میں دو سالہ نسل کشی: اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی بھیانک تاریخ

اسی طرح، خودکار بمبار گاڑیاں جو پہلی بار مارچ 2024 میں جبالیا کی دوسری یلغار میں دیکھی گئیں، جدید نسل کشی کے آلات میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان گاڑیوں کا ڈھانچہ قدیم M113 جیسا تھا مگر انہیں دور سے کنٹرول کے قابل بنایا گیا اور کم از کم 5 ٹن دھماکہ خیز مواد سے لیس کر دیا جاتا ہے؛ انہیں گھریلو محلے میں چھوڑ کر دور سے دھماکہ کر دیا جاتا ہے، جس سے کم از کم 500 میٹر کے دائرہ میں مکمل تباہی واقع ہوتی ہے۔

News ID 1935823

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha