4 اکتوبر، 2025، 9:42 AM

پاکستانی ماہر سیاسیات کی تہران ٹائمز سے گفتگو:

اسنیپ بیک پابندیاں ایران سے مذاکرات اور علاقائی تعاون کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں

اسنیپ بیک پابندیاں ایران سے مذاکرات اور علاقائی تعاون کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں

پاکستانی ماہر امور خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اسنیپ بیک پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعاون کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسنیپ بیک میکانزم کے دوبارہ فعال ہونے سے ایک بار پھر ایران کا جوہری پروگرام عالمی سفارتی گفتگو کا مرکز بن گیا ہے۔ یورپی ٹرائیکا کی جانب سے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کے بعد تہران نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے، جبکہ خطے کے ممالک اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں جو استحکام، تجارت اور سلامتی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع پاکستان، جو ایران کے ساتھ طویل سرحد رکھتا ہے، اس بدلتی ہوئی صورتحال میں مخصوص نوعیت کے چیلنجز اور مواقع کا سامنا کر رہا ہے۔ اسلام آباد کے مؤقف کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تہران ٹائمز نے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجہ قیصر احمد سے خصوصی گفتگو کی۔

جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست، بین الاقوامی قانون اور خارجہ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر احمد نے پاکستان کے مؤقف، اس کے اسٹریٹجک شراکت داروں کے کردار، اور سلامتی کونسل کے فیصلے کے وسیع تر علاقائی و عالمی اثرات پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا۔

تہران ٹائمز: ایران کے جوہری مسئلے کے حل میں پاکستان کی ترجیح دباؤ کے بجائے سفارت کاری پر رہی ہے۔ اس تناظر میں، سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اسنیپ بیک پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو اسلام آباد کس نظر سے دیکھتا ہے؟

ڈاکٹر قیصر احمد: پاکستان ہمیشہ سے زور دیتا آیا ہے کہ خطے کے تنازعات کو دباؤ یا جبر کے بجائے سفارت کاری، مکالمے اور علاقائی استحکام کے ذریعے حل کیا جائے۔ اسی بنیاد پر، اسنیپ بیک پابندیوں کا دوبارہ نفاذ ایک ایسا اقدام سمجھا جارہا ہے جو ایران کے جوہری معاہدے کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔ اسلام آباد محتاط اور متوازن انداز موقف کا حامی ہے اور تمام فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ بامعنی مذاکرات کو ترجیح دیں تاکہ تنازع کے مزید بڑھنے سے بچا جاسکے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔

تہران ٹائمز: چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات اس کے اسنیپ بیک پابندیوں پر مؤقف کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں، خاص طور پر جب پاکستان کے مغربی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط ہیں؟

ڈاکٹر قیصر احمد: چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے قریبی اسٹریٹجک تعلقات اسے ایک ایسے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت دیتے ہیں جو کثیرالجہتی تعاون اور متوازن علاقائی روابط کو ترجیح دیتا ہے۔ اگرچہ پاکستان مغربی ممالک کے ساتھ بھی تعمیری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے، تاہم اس کی خارجہ پالیسی خودمختاری، عدم مداخلت، اور مذاکرات پر مبنی حل کے اصولوں پر مبنی ہے وہی سفارتی فلسفہ جو اس کے مشرقی شراکت داروں، چین اور روس، کے ساتھ مشترک ہے۔

تہران ٹائمز: اسنیپ بیک پابندیوں کے پاکستان و ایران تعلقات پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، خصوصاً تجارت، سرحدی سلامتی اور علاقائی تعاون کے حوالے سے؟

ڈاکٹر قیصر احمد: اسنیپ بیک پابندیاں پاکستان اور ایران کے تعلقات پر عملی اثرات ڈال سکتی ہیں، خاص طور پر تجارت، سرحدی نظم و نسق، اور وسیع تر علاقائی تعاون کے میدان میں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ یہ پابندیاں دونوں ممالک کے درمیان جائز سرحد پار تجارت، توانائی کے منصوبوں یا سیکورٹی و دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات میں خلل نہ ڈالیں۔ اسلام آباد کے لیے یہ بنیادی ترجیح ہے کہ پاک ایران تعلقات مستحکم، باہمی مفاد پر مبنی اور دیرپا رہیں۔

تہران ٹائمز: قانونی نقطۂ نظر سے پاکستان سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی دفعات کو کس طرح سمجھتا ہے، اور اسنیپ بیک پابندیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قانون اس کی سفارتی حکمت عملی میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟

ڈاکٹر قیصر احمد: قانونی لحاظ سے پاکستان قرارداد 2231 کی دفعات کا احترام کرتا ہے اور بین الاقوامی قانون کو سفارتی عمل کے لیے ایک رہنما فریم ورک کے طور پر اہمیت دیتا ہے۔ اسلام آباد اس قرارداد کی ایسی تعبیر کرتا ہے جو سزا دینے کے بجائے مکالمے اور شمولیت پر مبنی طرزِ عمل کو فروغ دے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے اصولوں پر عمل درآمد اور تنازعات کے حل میں مذاکرات کے مرکزی کردار پر زور دیتا ہے۔

تہران ٹائمز: پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اور تنظیم تعاون اسلامی جیسے کثیرالجہتی فورمز کو اسنیپ بیک پابندیوں پر اپنے مؤقف کے فروغ کے لیے کس طرح استعمال کرتا ہے؟

ڈاکٹر قیصر احمد: پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اور تنظیم تعاون اسلامی جیسے کثیرالجہتی فورمز میں فعال کردار ادا کرتا ہے تاکہ اپنی پالیسیوں کو واضح کرے اور سفارت کاری، علاقائی استحکام، اور تعمیری مکالمے کی وکالت کر سکے۔ یہ پلیٹ فارم پاکستان کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ تعاون پر مبنی حلوں کو فروغ دے اور اسنیپ بیک پابندیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز پر علاقائی و عالمی شراکت داروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

News ID 1935742

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha