27 ستمبر، 2025، 9:11 AM

«شہید سید ہاشم صفی الدین»؛ مجاہدت سے شہادت تک

«شہید سید ہاشم صفی الدین»؛ مجاہدت سے شہادت تک

سید ہاشم صفی الدین 1980 کی دہائی میں سید حسن نصراللہ کے بعد قم کے دینی مدارس میں تعلیم کے لیے ایران گئے۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے لبنان واپسی اور حزب اللہ کے قیام کے بعد 1994 میں صفی الدین کو قم سے واپس بلایا تاکہ انہیں سیاسی اور عسکری ذمہ داریاں سونپی جا سکیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: «سید ہاشم صفی الدین» حزب اللہ لبنان کے فوجی کمانڈر اور سینئر سیاستدان تھے، جن کی ولادت 1964 میں لبنان کے جنوب میں واقع قصبہ دیر قانون النہر میں ایک معروف شیعہ خاندان میں ہوئی۔ وہ حزب اللہ کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے چچا زاد بھائی تھے اور اپنی زندگی کے بیشتر مراحل میں ان کے ساتھ رہے۔ سید ہاشم نے اپنی تعلیم عراق اور ایران کے دینی مدارس میں حاصل کی اور حزب اللہ کے قیام کے آغاز ہی سے اس میں شامل ہوئے اور اعلیٰ مناصب سنبھالے۔

خاندانِ صفی الدین سیاسی اور مذہبی میدان میں معروف رہا ہے، کیونکہ اس خاندان سے شیعہ علما اور ممتاز سیاستدان سامنے آئے ہیں، جیسے محمد صفی الدین، جو 1960 اور 1970 کی دہائی میں رکنِ پارلیمنٹ تھے۔ 1983 میں انہوں نے محمد علی الامین کی بیٹی سے شادی کی، جو لبنان کی اسلامی شیعی کونسل کے قانون ساز ادارے کے رکن تھے۔ ان کے بھائی «عبداللہ صفی الدین» حزب اللہ لبنان کے نمائندہ برائے ایران ہیں۔

مقاومت میں سیاسی اور عسکری تجربہ

سید ہاشم صفی الدین 1980 کی دہائی میں سید حسن نصراللہ کے بعد قم کے دینی مدارس میں تعلیم کے لیے ایران گئے۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے لبنان واپسی اور حزب اللہ کے قیام کے بعد 1994 میں صفی الدین کو قم سے واپس بلایا تاکہ انہیں سیاسی اور عسکری ذمہ داریاں سونپی جا سکیں۔ سید ہاشم صفی الدین کو شیخ نبیل قاووق کے ہمراہ حزب اللہ کے سینئر فوجی کمانڈر حاج عماد مغنیہ کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔

قم سے واپسی کے بعد انہوں نے حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کی صدارت سنبھالی جو درحقیقت حزب اللہ کے لیے ایک حکومت کی مانند تھی۔ یوں صفی الدین داخلی پالیسیوں کے نفاذ اور حزب اللہ کے انتظامی ڈھانچے کی ترقی کے ذمہ دار بن گئے۔

«شہید سید ہاشم صفی الدین»؛ مجاہدت سے شہادت کی تک

سید ہاشم صفی الدین نے 33 روزہ جنگ کے بعد بیروت کے جنوبی نواحی علاقے ضاحیہ کی تعمیر نو کی نگرانی کی۔ اس جنگ میں صہیونی رژیم نے اپنی شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے اس علاقے میں زمینِ سوختہ نامی پالیسی اپنائی اور اپنی شدید فضائی بمباری سے بیشتر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ تاہم صفی الدین نے 2012 کی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جنگ کے بعد لبنان کی تعمیر نو، صہیونی رژیم پر ایک نئی فتح تھی۔

شہید صفی الدین عملاً حزب اللہ کے دوسرے نمبر کے رہنما اور اس جماعت کے اعلیٰ ترین حکام میں سے ایک تھے جو اپنی سیاسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ عسکری شعبے میں بھی سرگرم تھے۔ وہ حزب اللہ کی کلیدی پالیسیوں کی راہنمائی میں فعال کردار ادا کرتے اور متعدد مواقع پر مزاحمت کے ترجمان کی حیثیت سے لبنانی اور علاقائی چیلنجوں کے درمیان اس کے مؤقف کو واضح کرتے۔

شہید صفی الدین؛ سات اکتوبر 2023 کے بعد فلسطین کی حمایت میں پیش پیش

امریکا نے 2017 میں سید ہاشم صفی الدین کو «دہشت گردی کے ملزمان» کی فہرست میں شامل کیا اور 2018 میں ان پر پابندیاں عائد کیں۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد صہیونی رژیم کے جرائم کے مقابلے میں انہوں نے غزہ کی مظلوم عوام غزہ کی فریاد پر لبیک کہا، جب دنیا تماشائی بنی ہوئی تھی۔ صفی الدین پہلے حزب اللہ رہنما تھے جنہوں نے ان حملوں اور جرائم پر ردعمل دیا۔

«شہید سید ہاشم صفی الدین»؛ مجاہدت سے شہادت کی تک

صفی الدین نے 8 اکتوبر 2023 کو بیروت کے جنوبی نواحی علاقے ضاحیہ میں اپنے خطاب میں کہا:
«امت آپ کے ساتھ ہے۔ ہمارے دل آپ کے ساتھ ہیں، ہمارے ذہن آپ کے ساتھ ہیں، ہماری روحیں آپ کے ساتھ ہیں۔ ہماری تاریخ، ہمارے ہتھیار اور ہمارے میزائل آپ کے ساتھ ہیں، اور ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔»
اس تقریر کے بعد غزہ کی حمایت میں صہیونی رژیم کے خلاف، حزب اللہ لبنان کی کارروائیاں شروع ہوئیں۔

اہم مناصب اور ذمہ داریاں

1994 میں شہید صفی الدین کو بیروت کے علاقے میں حزب اللہ کی قیادت سونپی گئی۔

1995 میں انہوں نے مزاحمت کونسل کی صدارت سنبھالی جو حزب اللہ کی عسکری سرگرمیوں کی نگران تھی۔

1998 میں وہ حزب اللہ کی قیادت کونسل کے رکن بنے۔

اسی سال انہیں ایگزیکٹو کونسل کی صدارت ملی اور وہ حزب اللہ کے دوسرے نمبر کے رہنما قرار پائے۔

انہوں نے حزب اللہ کی عسکری ساخت کے اعلیٰ ترین ادارے «شورائے جہادی» کی صدارت بھی کی۔

نومبر 2010 میں وہ حزب اللہ کے عسکری کمانڈر برائے جنوبی لبنان منتخب ہوئے۔

سید ہاشم صفی‌الدین کی نگاہ میں مقاومت کے ہمہ گیر اصول

شہید سید ہاشم صفی الدین نے اپنی نمایاں جہادی راہ میں صرف سیاسی سطح پر فلسطین کاز کی حمایت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزاحمتی گروہوں کے ساتھ مسلسل منصوبہ بندی اور ہم آہنگی کے عمل کا لازمی حصہ رہے۔ انہوں نے لبنان، شام، عراق اور یمن کے محاذوں کو «محاذوں کے اتحاد کی حکمتِ عملی» کے فریم ورک میں جوڑنے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔

سید صفی الدین نے اپنی تقاریر اور عملی اقدامات کے ذریعے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کے خلاف کوئی بھی جنگ دراصل پورے محورِ مقاومت کے خلاف جنگ ہے۔ وہ اپنے مخلص جہادی سفر کے دوران ایک واضح اور اسٹریٹجک نقطہ نظر رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مقاومت صرف ایک فوجی قوت نہیں بلکہ ایک مکمل منصوبہ ہے جو سیاست اور معاشرت، اسلحہ اور عقیدہ، اور مقامی موجودگی اور علاقائی اثرات کو یکجا کرتا ہے۔

شہید کا عقیدہ تھا کہ وہ مقاومت جو عوام کے وجدان میں جڑیں نہ رکھتی ہو اور اپنے عوامی و سماجی ماحول سے جڑی نہ ہو، ناقص ہے۔ اسی لیے انہوں نے سماجی سرگرمیوں اور معاشرتی ترقی کی راہنمائی میں نمایاں کردار ادا کیا تاکہ عوام مقاومت کو اپنائیں اور اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لیں۔

سید ہاشم صفی الدین صرف ایک لبنانی شخصیت نہیں تھے، بلکہ محورِ مقاومت کا حصہ تھے جو لبنان سے لے کر فلسطین، شام، عراق، ایران اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ خطے کے عادلانہ مسائل کے حامی موقف رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک لبنان کی اسلامی مقاومت اپنے ماحول سے کٹی ہوئی نہ تھی، بلکہ اس بڑے محاذ کا حصہ تھی جو خطے میں صہیونی-امریکی منصوبے کے خلاف سرگرم تھا۔

شہادت؛ دیرینہ رفیق کی جدائی کے چند روز بعد

8 اکتوبر 2024 کو صہیونی رژیم نے اعلان کیا کہ ہاشم صفی الدین کو ٹارگٹ کر کے شہید کر دیا ہے۔ صہیونی رژیم نے طویل عرصے تک امدادی اور شہری دفاعی ٹیموں کو جائے حملہ تک پہنچنے سے روکے رکھا۔ بالآخر حزب اللہ لبنان نے بدھ، 23 اکتوبر 2024 کو سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کی خبر باضابطہ طور پر دی۔

«شہید سید ہاشم صفی الدین»؛ مجاہدت سے شہادت کی تک

شیخ نعیم قاسم، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنی ایک تقریر میں، جو انہوں نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد کی، اعلان کیا کہ سید ہاشم صفی الدین صہیونی رژیم کے ہاتھوں شہادت سے قبل حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل منتخب ہو چکے تھے۔

سید ہاشم صفی الدین کو شہید کرنا صہیونی رژیم کی جانب سے مزاحمت کو نقصان پہنچانے کی ایک مذموم کوشش تھی، لیکن یہ اقدام صرف اس بات کی ایک اور گواہی ہے کہ یہ راستہ مضبوط اور پائیدار ہے۔ اگرچہ سید ہاشم صفی الدین، سید حسن نصراللہ کے بعد، راہِ قدس میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پہنچے، مگر ان دونوں شہیدوں کا میراث باقی ہے اور ان کا راستہ آئندہ نسلوں کے لیے چراغِ راہ اور مقاومت کی استواری کا سہارا رہے گا۔

News ID 1935606

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha