مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں جاری صہیونی جارحیت ایک سنگین انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بے گناہ شہریوں کا قتل عام، بنیادی سہولیات کی تباہی اور امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے ذریعے اسرائیل نے فلسطینی عوام کی زندگی کو مسلسل خطرے میں ڈالا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، غزہ کے حالات سے دنیا کو لاعلم رکھنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جاری نسل کشی کے حقیقی اسباب اور اثرات منظرِ عام پر نہ آئیں۔ اس سلسلے میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے، جس سے اطلاعات کی روانی متاثر ہو رہی ہے اور مظلوم عوام کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ ناصر ہسپتال اور دیگر شہری مراکز پر اسرائیلی حملے اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ نہ صرف شہری بلکہ صحافی بھی دہشت گردی کے ہدف بنائے جارہے ہیں۔
غزہ میڈیا دفتر کے سربراہ اسماعیل ثوابتہ کے مطابق، غزہ میں صحافیوں کی زندگی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ صحافی غزہ میں انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ آج تک 244 صحافی شہید ہوچکے ہیں، جو فلسطینی عوام کی مظلومیت اجاگر کرنے اور اسرائیل کے جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
اس جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اسرائیل اور بنیامین نتن یاہو حکومت کی پالیسیوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی برادری اور متعدد ممالک نے شدید تنقید کی ہے۔ مہر نیوز نے غزہ میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں معروف ترک خاتون صحافی فولیا اوزترک سے گفتگو کی ہے۔
فولیا اوزترک نے کہا کہ اسرائیل نے ناصر ہسپتال پر حملہ کر کے ہمارے ہم پیشہ صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔ یہ حملے مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک، بشمول اٹلی، فرانس، آسٹریا اور امریکہ میں لوگوں کی غزہ کے عوام کے لیے یکجہتی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ صحافیوں کو بھی اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں یقین رکھتی ہوں کہ اسرائیل اور نتن یاہو کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔ اسرائیل کے اندر بھی بحران ہے، فوجی بھرتی کے لیے تیار نہیں اور احتجاجات جاری ہیں۔ یہ معاشرتی بحران مزید بڑھتا جائے گا۔
اوزترک نے واضح کیا کہ اسرائیل جتنا چاہے صحافیوں اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنائے، وہ سچائی کی آواز دبا نہیں سکتا۔ اسرائیلی دعوی کرتے ہیں کہ یهود دشمنی کے خلاف ہیں، لیکن ان کے اقدامات دنیا میں یهود دشمنی بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے صہیونیوں کی عالمی تنہائی کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ صہیونی کسی بھی ملک میں جائیں، ان کے ساتھ منفی سلوک کے واقعات پیش آتے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اوزترک نے عالمی صحافیوں کو متحد ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ آئیے اپنی آواز بلند کریں اور احتجاج جاری رکھیں۔ ہم دل شکستہ اور پریشان ہیں، لیکن غزہ کے عوام اور صحافیوں کی موت پر خاموش رہنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر اس نسل کشی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے اسلامی دنیا کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا کہ غزہ کے بارے میں کچھ اسلامی ممالک کی پالیسیز ناکام رہی ہیں۔ دنیا کے بڑے مسلم ممالک کو متحد ہونا چاہیے تھا۔ ترکی اور ایران ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ رہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ فلسطین کی حمایت کے لیے تمام مسلم ممالک کا اتحاد ضروری ہے۔
اوزترک نے کہا کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل جان بوجھ کر صحافیوں کو نشانہ بنارہا ہے، وہ محض زخمی نہیں ہوتے، بلکہ براہ راست نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے تمام صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم بنانا چاہیے اور غزہ کی آواز بننی چاہیے۔ صحافیوں کو متحد ہونا ہوگا۔ اگر ضروری ہو تو مصر، غزہ کی سرحد اور فلسطینی علاقوں میں احتجاج کرنا ہوگا۔ ابھی ہم اس مقصد تک نہیں پہنچے، اس پر کام کرنا ہوگا۔
اوزترک نے آخر میں کہا کہ اسرائیل اور بنیامین نتن یاہو کے جرائم کے خلاف مقدمہ قائم ہوگا۔ ہمیں سکوت اختیار کیے بغیر بھی حقائق کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر اس نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔
آپ کا تبصرہ