9 اگست، 2025، 7:51 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

انہوں نے بچپن ہی سے مصوری میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور حاجی مرزا آقا امامی اور عیسیٰ بہادری جیسے اساتذہ سے تربیت حاصل کی۔

مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک؛ محمود فرشچیان ایران کے نامور مصور اور استادِ فن تھے، جنہیں روایتی ایرانی مصوری میں مہارت کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت ملی۔

وہ 24 جنوری 1930 کو ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئے اور 9 اگست 2025 کو 95 برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے۔

فرشچیان ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں فنونِ لطیفہ کی قدر کی جاتی تھی—ان کے والد ایرانی قالینوں کے تاجر تھے۔ انہوں نے بچپن ہی سے مصوری میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور حاجی مرزا آقا امامی اور عیسیٰ بہادری جیسے اساتذہ سے تربیت حاصل کی۔

اصفہان کے اسکول آف فائن آرٹس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے یورپ گئے، جہاں مغربی مصوروں کے کام سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنا منفرد اسلوب وضع کیا۔

محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

ان کے بچپن کے گھر میں ایک حصہ "چکن ہاؤس" کہلاتا تھا، جہاں وہ چڑیوں، مرغیوں اور مرغوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پرندے اکثر ان کی پینٹنگز کا حصہ بنتے رہے، جو ان کے بچپن کی یادوں سے جڑے ہوتے تھے۔

محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

مرحوم محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

محمود فرشچیان نے بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی اور کئی سال تک حاجی مرزا آقا امامی اور عیسیٰ بہادری جیسے اساتذہ سے تربیت حاصل کی۔

اصفہان کے اسکول آف فائن آرٹس سے ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ یورپ گئے، جہاں انہوں نے مغربی مصوری کے عظیم اساتذہ کے کام کا مطالعہ کیا۔ انہیں ایرانی مصوری اور اسلامی فنون میں گریڈ ون ڈاکٹریٹ کی ڈگری اعلیٰ ثقافتی و فنی کونسل سے عطا کی گئی۔

ایران واپسی پر وہ قومی فائن آرٹس انسٹی ٹیوٹ (جو بعد میں وزارتِ فن و ثقافت بنا) سے وابستہ ہوئے، جہاں ترقی کرتے ہوئے قومی فنون کے شعبے کے سربراہ اور جامعہ تہران کے اسکول آف فائن آرٹس میں پروفیسر مقرر ہوئے۔

فرشچیان کے فن کی پہچان شوخ و چمکدار رنگ، متحرک ترتیب اور روایتی ایرانی مصوری کی باریکیوں کو جدید انداز میں پیش کرنا ہے۔ انہوں نے "سُرنَیچرلزم" کے نام سے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا، جو لطیف اور روحانی موضوعات پر زور دیتا ہے اور اکثر ایرانی ادب، تصوف اور مذہبی متون سے متاثر ہوتا ہے۔ ان کی پینٹنگز میں محبت، روحانیت اور انسانی زندگی کے موضوعات عام ہیں، جو ہر طبقے کے ناظرین کو متاثر کرتے ہیں۔

محمود فرشچیان، عالمی سطح پر ایرانی مصوری کے سفیر

محمود فرشچیان کی پہلی انفرادی نمائش 1948 میں اصفہان کے ایران-برطانیہ کلچرل ایسوسی ایشن کے دفتر میں ہوئی۔ ملک سے باہر ان کی پہلی نمائش 1960 میں استنبول، ترکی میں منعقد ہوئی، جبکہ امریکہ میں ان کی ابتدائی نمائشیں 1972 اور 1973 میں لگیں۔

2001 میں تہران کے سعدآباد کلچرل کمپلیکس میں ثقافتی ورثہ فاؤنڈیشن نے ’’محمود فرشچیان میوزیم‘‘ قائم کیا، جو مکمل طور پر ان کے فن پاروں کے لیے وقف ہے۔

اپنے کیریئر کے دوران فرشچیان نے نمایاں تعلیمی عہدے بھی سنبھالے، جن میں جامعہ تہران کے اسکول آف فائن آرٹس میں پروفیسر شپ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فائن آرٹس کی قیادت شامل ہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں 150 سے زائد انفرادی اور مشترکہ نمائشوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اور ان کے فن پارے برٹش لائبریری، فریئر گیلری آف آرٹ، ببل یوتھک نیشنل، میٹروپولیٹن میوزیم اور ہارورڈ یونیورسٹی جیسے معروف اداروں میں محفوظ ہیں۔

فن میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد عالمی اعزازات ملے، جن میں گولڈن پام آف یورپ (1987)، آسکر ڈی اٹالیا (1985) اور ویسیلو یورپا ڈیل آرٹے (1984) شامل ہیں۔ سنہ 2000 میں کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں 21ویں صدی کے نمایاں فکری شخصیات میں شامل کیا۔

محمود فرشچیان کا اثر صرف ان کی پینٹنگز تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے نیو جرسی میں ایک ثقافتی مرکز قائم کیا اور ایرانی فن کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی ان کا فن دنیا بھر کے مصوروں اور شائقینِ فن کو متاثر کرتا ہے، ثقافتی فاصلے مٹاتا ہے اور ایرانی ورثے کی خوبصورتی کو اجاگر کرتا ہے۔

یونیسکو نے محمود فرشچیان کے منتخب فن پارے شائع کیے

یونیسکو نے 1991 میں جرمنی میں محمود فرشچیان کے منتخب فن پارے شائع کیے، جن میں اس عظیم مصور کے 113 شاہکار شامل ہیں۔ اس مجموعے کے آغاز میں فرشچیان نے اسے "دنیا کے تمام نیک دل انسانوں" کے لیے وقف کیا، اور تعارف 36 زبانوں میں تحریر کیا گیا۔

2003 میں یونیسکو نے اٹلی میں ان کے منتخب فن پاروں کا ایک اور مجموعہ شائع کیا، جس میں 97 فن پارے شامل تھے۔ اس قیمتی کلیکشن کا تعارف اس وقت کے یونیسکو ڈائریکٹر جنرل کوئچیرو ماتسورا نے لکھا۔

ایک انٹرویو میں فرشچیان نے کہا تھا کہ ایرانی عوام کو ثقافت سے محبت ہے اور میں دنیا کے ہر شخص کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ایران امن اور دوستی کی سرزمین ہے۔

عالمی شہرت یافتہ مصور محمود فرشچیان نے ’’شامِ عاشورا‘‘ تخلیق کی، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک عظیم المیے کو بیان کرتی ہے بلکہ یہ بھی دکھاتی ہے کہ تاریخ کے بڑے واقعات کو فن کے ذریعے کس طرح زندہ جا سکتا ہے۔

یہ شاہکار ذوالجناح کی واپسی کا منظر پیش کرتا ہے، جب وہ بغیر سوار کے لوٹا اور خیموں میں موجود خانوادہ شدید غم میں ڈوب گیا۔ اس مصوری میں غم اور سوگ کی کیفیت کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

محمود فرشچیان، روایتی و جدید مصوری کے امتزاج کے علمبردار

محمود فرشچیان کو مصوری میں جدت پیدا کرنے والا سب سے اہم فنکار مانا جاتا ہے۔ ان کا نام برطانیہ کی فہرست ’’21ویں صدی کے 2000 نمایاں فکری شخصیات‘‘ میں شامل ہے، اور دنیا بھر کے کلیکٹرز ان کے کسی بھی فن پارے کے مالک ہونے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔

News ID 1934764

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha