4 اگست، 2025، 7:53 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

ایران کی میزائل طاقت نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، اطالوی مصنف

ایران کی میزائل طاقت نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، اطالوی مصنف

اطالوی مصنف کے مطابق اسرائیل دفاعی ذخائر کے باوجود ایرانی حملوں کے سامنے بےبس نظر آیا؛ امریکہ نے براہ راست مداخلت کی تاکہ اسرائیل کو شکست سے بچایا جا سکے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اطالوی مصنف اور سیاسی تجزیہ کار آلساندرو اورسینی نے اپنی نئی کتاب میں 12 روزہ جنگ ایران و اسرائیل کو باریک بینی سے پرکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس لڑائی میں ایران نہ صرف میدان میں بلکہ تزویراتی سطح پر بھی کامیاب رہا۔

اٹلی کے معروف ادبی میلے بینکارلا کے موقع پر 25 جولائی کو ہونے والی ایک خصوصی نشست میں، اورسینی نے عالمی سیاست بالخصوص ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغرب بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس جنگ میں فیصلہ کن مداخلت سے اجتناب کیا۔ اس کے برعکس ایران نے نہایت منظم اور ہوشمندانہ انداز میں دفاعی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کو جنگی میدان میں پسپا کیا۔

انہوں نے ایران کے فوجی ردعمل کو بروقت، محدود لیکن مؤثر قرار دیا اور کہا کہ ایران نے جنگی حکمت عملی میں احتیاط اور طاقت کا توازن برقرار رکھا، جس سے وہ عالمی سطح پر ایک باوقار قوت کے طور پر ابھرا۔

اورسینی کا یہ تجزیہ مغرب میں رائج اس عمومی بیانیے سے ہٹ کر ہے، جو عموما اسرائیل کی عسکری برتری پر زور دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے میدان جنگ میں نہیں، بلکہ سیاسی اور نفسیاتی میدان میں بھی فتح حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑی، تو لوگوں کا ردعمل کسی فٹبال میچ کی طرح تھا۔ بہت سے لوگ اندھی حمایت میں مبتلا ہوگئے، جیسے کسی ٹیم کے مداح، جو اپنی ٹیم کو ہر حال میں فاتح سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کی ٹیم کی طاقت پر سوال اٹھائے، تو وہ غصے سے بھر جاتے ہیں۔

اسی طرح، اٹلی کے میڈیا نے بھی جلدی سے اعلان کردیا کہ اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ پہلے جوش میں آئے، پھر حقیقت کو نظرانداز کیا اور وہ باتیں کرنے لگے جو اصل حقیقت کے بالکل الٹ تھیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس جنگ میں ایران کو خاصی برتری حاصل تھی۔ یہ جنگ دراصل ارادوں اور اعصاب کی جنگ تھی جس میں ایران کو واضح برتری حاصل تھی۔ اگر یہ جنگ بارہ دن اور جاری رہتی تو اسرائیل مکمل شکست کھا جاتا۔ اگر امریکہ نے مداخلت نہ کی ہوتی تو ایران کی فتح یقینی تھی۔

امریکہ نے 22 جون کو مداخلت کی، جبکہ اسرائیل نے 13 جون کو فضائی حملے شروع کیے تھے۔ یعنی 9 دن بعد امریکہ نے خود حملے میں حصہ لیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسرائیل تیزی سے ہار کی طرف بڑھ رہا تھا۔

اسرائیل کے پاس کئی مضبوط دفاعی نظام تھے:

قریبی فاصلے سے آنے والے حملوں کے لیے "آئرن ڈوم"، درمیانے فاصلے کے لیے "ڈیوڈ سلنگز" اور بیلسٹک میزائلوں کے لیے "ایرو3"۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے بھی دفاع میں مدد دی تھی۔ انہوں نے "تھاڈ" دفاعی نظام، "پٹریاٹ" میزائل، اور پانچ بحری جنگی جہاز بھی تعینات کیے تھے، جن میں "ایجیس" نامی جدید ٹیکنالوجی نصب تھی۔ اس کے باوجود 17 جون کو امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے رپورٹ دی کہ اسرائیل کے "ایرو 3" میزائل ختم ہونے کے قریب ہیں۔ یہی میزائل ایران کے بیلسٹک حملوں کو روکنے کے لیے سب سے اہم تھے۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر جانی و مالی نقصان تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے اطالوی مصنف نے کہا کہ اسرائیل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی آبادی صرف ایک کروڑ ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں ایران نو کروڑ کی آبادی پر مشتمل ایک طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل کے وسائل محدود ہیں اور اس کے صرف دو تجارتی بندر ہیں: اشدود اور حیفا۔ دونوں کو ایران نے نشانہ بنایا۔ ایران نے ملک کے سب سے ترقی یافتہ تحقیقی مرکز، وایزمن انسٹیٹیوٹ کو بھی نشانہ بنایا۔ اس ادارے کے منتظمین نے اعلان کیا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل کی سائنسی تحقیق کم از کم دو سے پانچ سال پیچھے چلی گئی ہے۔

ایران نے ابتدا میں احتیاط سے اور پرانے میزائلوں سے حملے کیے، تاکہ امریکہ کی براہ راست مداخلت سے بچا جاسکے۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں، تو اس نے اپنے حملوں کی شدت اور دقت میں اضافہ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے اس وقت مداخلت کی جب اس نے دیکھا کہ ایران پوری قوت سے نہیں لڑرہا، بلکہ یوں کہیے کہ ہاتھ باندھ کر پیش قدمی کررہا ہے۔ 13 جون کو امریکہ نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز مشرق وسطی روانہ کیا۔ دو دن بعد، دوسرا بحری جہاز ایمرجنسی میں روانہ کیا گیا۔ چار دن بعد، تیسرا طیارہ بردار بحری جہاز بھی پہنچ گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کے پاس ایک بھی طیارہ بردار جہاز موجود نہیں ہے۔

اورسینی نے اٹلی کے ذرائع ابلاغ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اطالوی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح جذباتی اور سطحی رویّہ اپنایا۔

پہلے دن: عوامی جوش و خروش اور جشن۔ روزنامہ کورئیری دلا سیرا نے ایک ایسا مضمون شائع کیا جس میں بے بنیاد خبروں سے متاثر ہوکر دعوی کیا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تباہی کے دہانے پر ہے!

لیکن صرف چار دن بعد، 17 جون کو جنیوا میں ایران اور مغربی نمائندوں کے درمیان ہونے والی ایک نشست میں تہران نے دو ٹوک اعلان کیا کہ ہم اپنے جوہری اور میزائل پروگرام سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جو اس میڈیا پروپیگنڈے کو جھٹلاتی ہے کہ ایران کمزور ہو چکا ہے یا بکھرنے کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں یہ حقائق بیان کرتا ہوں، تو مجھے نفرت انگیز ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بالآخر مجھے اپنا ایکس اکاؤنٹ بند کرنا پڑا تاکہ خود کو حملوں سے محفوظ رکھ سکوں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

کیوں کہ تقلیدی ذہن رکھنے والا انسان اپنی پہلے سے بنائی گئی رائے کو چیلنج ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ ایسا انسان بغیر کسی تحقیق یا مطالعہ کے مانتا ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی طاقتور ریاست ہے اور ایران ایک کمزور ملک جبکہ جب ایک جامع تحقیق کرنے والا یونیورسٹی پروفیسر اس کے برعکس حقائق پیش کرتا ہے تو وہ شخص جارح بن جاتا ہے۔ ایک استاد کی حیثیت سے میری یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ میں نے تحقیق و مطالعے کے ذریعے جانا ہے، وہ سچ بیان کروں چاہے یہ سچ بہت سوں کے لیے تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو۔ حقیقت وہ نہیں جو ہمیں دکھائی یا سنائی جاتی ہے بلکہ ایک محقق کا کام یہ ہے کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کرے چاہے وہ سچ خوفناک ہی کیوں نہ ہو۔ آج کا سچ یہ ہے کہ ایران نے ایسی میزائل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے کہ اسرائیل شدید مشکل میں پڑ گیا حتی کہ امریکہ کو براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

News ID 1934684

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha