17 جون، 2025، 8:54 AM

مشرق وسطی میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن، ٹرمپ کے خواب چکنا چور ہوگئے

مشرق وسطی میں طاقت کا بدلتا ہوا توازن، ٹرمپ کے خواب چکنا چور ہوگئے

ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، جنگی دھمکیاں اور سیاسی شعبدہ بازی آخرکار میدان جنگ کے تلخ حقائق کے آگے دم توڑ گئیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ان دنوں جب میدان جنگ میں شکست کا سایہ صہیونی حکومت پر چھا چکا ہے اور پورا خطہ پہلے سے کہیں زیادہ تبدیلی کی زد میں ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جو کبھی وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر معاہدے پھاڑتا تھا، آج دوبارہ ایران کا نام لے کر میدان میں آ گیا ہے اور ہر طرح کا لہجہ اختیار کر رہا ہے تاکہ کسی معاہدے تک پہنچ سکے۔ ٹرمپ جو پہلے بارہا رسمی و غیر رسمی طور پر کہہ چکا تھا کہ وہ اس جنگ میں مداخلت نہیں کرے گا تاکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی وسائل ضائع نہ ہوں، اب دھمکی آمیز لہجے میں اعلان کر رہا ہے کہ وہ تہران پر حملہ کرے گا اور خود ایران و اسرائیل کی جنگ میں کود پڑے گا۔

لیکن کیا ان باتوں کو سنجیدہ لینا چاہیے؟ یا یہ بھی اس شخص کے پرشور لیکن بے بنیاد ڈراموں کا ایک نیا ایپی سوڈ ہے جس نے اپنی خارجہ پالیسی میں حکمت عملی کے بجائے سنسنی اور شور و غوغا کو اختیار کیا ہے؟

ٹرمپ کی ماضی کی دھمکیاں بھی اسی طرح کی کھوکھلی اور پُر طمطراق رہی ہیں۔ یمن کی جنگ کے عروج پر بھی امریکہ نے انہی لہجوں میں انصار اللہ کو سخت جوابی کاروائی کی دھمکیاں دیں، لیکن عملی طور پر کبھی بھی وہ اپنے ان نعروں کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔ آج بھی لگتا ہے کہ ٹرمپ وہی پرانا کھیل دہرا رہا ہے: بلند آواز مگر اندر سے خالی۔

ان دنوں ٹرمپ کے بیانات میں عجیب قسم کا تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ جنگ کی ضرورت کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف خود کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے وہ اپنی ذاتی تدبیر سے ایران کے بحران کو سنبھال سکتا ہے۔ یہ دونوں متضاد چہرے دراصل ایک ہی منصوبے کے دو پہلو ہیں؛ ایک منصوبہ جو اب صہیونی حکومت کی میدان میں ناکامی کے ساتھ بند گلی میں داخل ہوچکا ہے۔ وہ منصوبہ جس کا آغاز ٹرمپ نے کیا تھا، زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کے تحت ایک زبردست تشہیر کی گئی، اور آخرکار اس موڑ پر پہنچا جہاں ٹرمپ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں نے ایران کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا اور اب جنگ کے ذریعے کام تمام کرسکتا ہوں۔

لیکن میدان کے حالات امریکہ اور اسرائیل کی خواہشات کے مطابق نہیں جا رہے۔ جس جنگ کو ٹرمپ خود کے لیے "آخری پتہ" سمجھتا تھا، وہ اب مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کی اجتماعی قبر بن رہی ہے۔ اسرائیل نہ صرف جنگ ختم نہیں کرسکا، بلکہ خود اس دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ وہ فوج جو کبھی خود کو ناقابل شکست سمجھتی تھی، آج ایک ایسی جنگ میں گرفتار ہوچکی ہے جس کا نہ کوئی انجام نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی روشن افق۔

چنانچہ ٹرمپ کی یہ دھمکیاں حکمت عملی سے زیادہ نفسیاتی کھیل لگتی ہیں۔ وہ دراصل اسرائیل کے لیے ایک باپ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بحر اوقیانوس کے اس پار سے ایک ایسی فوج کو حوصلہ دے رہا ہے جس نے اپنے حوصلے پناہ گاہوں میں چھوڑ دیے ہیں۔ اور میدان جنگ کی تلخ حقیقتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن میدان جنگ کی حقیقت امریکی انتخاباتی مہم کے شوروغل سے بے نیاز اپنی راہ پر گامزن ہے۔

اسرائیل کی موجودہ حالت نہ صرف خود اس کے لیے ایک بڑا سیکورٹی چیلنج ہے بلکہ خطے میں امریکی سرگرمیوں کے ہاتھ بھی باندھ رہی ہے۔ جتنا زیادہ اسرائیل دلدل میں ڈوبتا جائے گا، امریکہ کا علاقائی اثر و رسوخ بھی اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا۔ اس کا منصوبہ حقیقت میں کچھ حاصل کیے بغیر اندر سے ہی مکمل ناکام ہوچکا ہے۔

ممکن ہے ٹرمپ ایک بار پھر بلند و بانگ دعوے کرنا شروع کرے، لیکن مشرق وسطیٰ اب اس کا انتظار نہیں کر رہا۔ طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور اس بار نہ مذاکرات اور نہ ہی معاہدوں کے ذریعے بلکہ میدان جنگ کی بھاری اور پرخطر قیمتوں کے ساتھ مستقبل لکھا جا رہا ہے۔

News ID 1933601

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha