مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے قاہرہ میں سربراہی اجلاس کے موقع پر مصری چینل الغد کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں خطے کی صورت حال پر گفتگو کی۔
عراقچی نے خطے کے اہم اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کی غرض سے تیار کردہ طویل المدتی امریکی صیہونی منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم ممالک کو خبردار کیا۔
انہوں تاکید کی کہ صیہونی رجیم کی غزہ اور لبنان میں ساٹھ ہزار سے زائد خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی نسل کشی اور شام کے دفاعی، اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی خطرے کے بارے میں ایران کی تشویش درست ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ شام میں دہشت گردی کی واپسی خطے کے تمام ممالک کے لیے یکساں طور پر خطرہ ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ ایران نے آستانہ عمل کے فریم ورک کے اندر دو طرفہ مذاکرات میں شام کے سیاسی مخالف گروہوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں سفارشات فراہم کیں، لیکن شام کی حکومت کو آپریشنل آزادی حاصل تھی اور وہ ایران اور روس کے کنٹرول میں نہیں تھی۔
مزاحمتی محور کی تشکیل کا اصل ہدف صیہونی قبضے کے خلاف لڑنا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں مزاحمتی محور کی تشکیل کا بنیادی ہدف فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت کے قبضے اور جارحیت کا مقابلہ کرنا اور فلسطینیوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ہے۔
انہوں اس بات پر زور دیا کہ غزہ جنگ اور بعض رہنماؤں کی شہادت کے بعد کی مزاحمت نے غاصبوں پر کاری ضرب لگائی اور اسرائیلی حکومت کو لبنان میں مذاکرات اور جنگ بندی کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔
عراقچی نے ایران اور مصر کی تہذیبی اور تاریخی حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانا خطے کے تمام ممالک کے مفادات کے عین مطابق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی دنیا اور ایران نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت اور جنگ بندی کے قیام کے لیے مصر کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔
آپ کا تبصرہ