28 فروری، 2024، 9:16 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ایران کے پارلیمانی انتخابات کا سرسری جائزہ

ایران کے پارلیمانی انتخابات کا سرسری جائزہ

انتخابات کسی بھی معاشرے کے نظم و نسق میں عوامی ارادے اور مرضی کا مظہر ہوتے ہیں۔ اسلامی اسلامی جمہوریہ ایران میں پارلیمانی انتخابات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام اور اس کے بانیوں کے بیانات میں جس طرح پارلیمنٹ کی حیثیت اور کردار پر تاکید کی گئی ہے یہ بذات خود اس کی دیگر عوامی رائے سے تشکیل پانے والے اداروں کی نسبت غیر معمولی اہمیت کا واضح اظہار ہے۔

عوام کی براہ راست ووٹنگ کے ذریعے تشکیل پانے والے اداروں میں سے ایک یہی پارلیمنٹ تھی جسے انقلاب کے بانی (امام خمینیؒ) نے "خانہ ملت" کا نام دیا تھا۔

دوسری طرف اس حقیقت کے باوجود کہ اسلامی انقلاب نے اپنی پیدائش کے بعد سے ہنگامہ خیز ادوار اور نشیب و فراز دیکھے، ملک کی پارلیمنٹ کے انتخابات کو اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ تقریباً تمام انتخابات  ملک کے لیے نازک اور فیصلہ کن مراحل میں ہوئے؛ اس لیے پارلیمنٹ کے انتخابات کے پس منظر کا جائزہ در حقیقت انقلاب کی تاریخ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو ریویو کرنے  کی طرح ہے۔

اگرچہ اس قومی ایوان کے ​​انتخابات کی تاریخ کا از سر نو جائزہ بڑوں کے لئے حدیث مکرر ہوگا لیکن انقلاب کے بعد کی نسلوں کے لیے خاص طور پر نئی نسل کے لیے جو ووٹنگ کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ یہ انقلاب کی تاریخ کی مختصر داستان ہو سکتا ہے۔

پہلی ملکی پارلیمنٹ کے انتخابات

پارلیمنٹ کا پہلا الیکشن 14 مارچ 1980 کو ہوا۔ 1980 ملک کے لیے انتخابات سے بھرپور سال تھا اور اسی لیے اسے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

اس سال کے اوائل میں یعنی 30 مارچ 1979 کو عوام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ریفرنڈم میں شرکت کی اور اپنے ملک میں اس نظام کے قیام پر مہر تصدیق ثبت کی۔ اسی سال  آئین کے حتمی جائزے کے لیے ماہرین کا انتخاب ہوا اور اسلامی جمہوریہ کے آئین کی عوام سے منظوری لی گئی۔

 4 فروری 1980 پہلے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا دن تھا اور آخر کار اس سال کے آخری ایام میں لوگوں نے پارلیمنٹ کی پہلی مدت کے لئے ووٹنگ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا۔

اسلامی جمہوریہ کے نئے قائم کردہ نظام کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں انقلاب کی بہت سی جانی پہچانی شخصیات نے ایوانِ ملت میں قوم کی نمائندگی کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا۔

پہلے پارلیمانی انتخابات متعدد سیاسی تحریکوں اور گروہوں کی موجودگی کے ساتھ ہوئے اس لئے پارلیمنٹ کے اس دور کے انتخابات سیاسی گروہوں اور دھڑوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے ادوار کے انتخابات سے ممتاز ہیں۔

انتخابات کے اس دور میں حزب جمہوری اسلامی اور جامعہ روحانیت (علماء برادری) نے کافی مشاورت کے بعد ایک مشترکہ فہرست پیش کرنے پر اتفاق کیا اور حزب جمہوری اسلامی کی جانب سے آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور جامعہ روحانیت کی جانب سے مہدی شاہ آبادی کے دستخط کردہ ایک بیانئے کے ذریعے  گرینڈ الائنس کا اعلان کیا۔

مذکورہ دونوں تنظیموں کے ساتھ اتحاد کرنے والے گروپوں کے علاوہ "مجاہدین آرگنائزیشن"، "فجر اسلام آرگنائزیشن"، "مسلم ویمن موومنٹ"، "یونین آف اسلامک ایسوسی ایشنز" اور "الہادی فاؤنڈیشن" جیسے گروپوں نے بھی اس اتحاد میں حصہ لیا۔

دوسرے گروپس جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا " صدر سے عوامی ہماہنگی کا دفتر" (ابوالحسن بنی صدر کی پارٹی) "تحریک آزادی" اور دیگر گروپس نے بھی الگ الگ فہرستیں پیش کیں۔

عبوری حکومت کے استعفیٰ اور امریکی سفارت خانے پر قبضے کے باوجود تحریک آزادی نے اپنی انتخابی فہرست ’’ ہمگام امیدوار‘‘ کے عنوان سے ہیش کی۔ منافقین (مجاہدین خلق) جو کہ انقلاب کے آغاز سے ہی اقتدار میں حصہ مانگ رہے تھے، انتخابات کے اس دور میں بھی نمودار ہوئے۔

اس انتخابی مدت میں ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی کا اعلان 20 ملین 857 ہزار 391 افراد کے طور پر کیا گیا تھا جن میں سے 10 ملین 575 ہزار 969 افراد نے حصہ لیا جو کہ پورے ملک میں 52.14 فیصد کے برابر ہے۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں ملک بھر سے 97 افراد نے ووٹوں کی قطعی اکثریت حاصل کی اور انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 137 افراد پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔

 دوسرا پارلمانی دورہ انتخابات 

پارلیمنٹ کی دوسری مدت کے انتخابات 15 اپریل 1984 کو ہوئے۔ اس دورے کا انعقاد اسلامی انقلاب کے ہنگامہ خیز دور کے ساتھ ہوا۔ اس دورہ انتخابات میں مسلط کردہ جنگ نازک مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ عراقی افواج کی طرف سے ملک کے سرحدی علاقوں کے کچھ حصوں پر قبضے نے ان علاقوں میں انتخابات کا انعقاد عملاً ناممکن بنا دیا تھا لیکن جنگ زدہ حلقوں کے انتخابات ان شہروں کے تارکین وطن کے لیے پڑوسی حلقوں میں کرائے گئے۔

پہلی پارلیمنٹ میں صدر کی سیاسی نااہلی کے منصوبے کی منظوری اور بنی صدر کو صدارت سے معزول کرنا، حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں دھماکہ اور ڈاکٹر بہشتی اور 72 انقلابیوں کی شہادت ان دیگر واقعات میں شامل تھے جنہوں نے ملک کے انتخابات سے پہلے کے دنوں میں ماحول کو متاثر کیا۔ 

اس راؤنڈ میں کل 24 ملین 143 ہزار 498 اہل افراد میں سے 15 ملین 607 ہزار 306 افراد نے حصہ لیا۔ اس الیکشن میں لوگوں کی شرکت کی شرح 64.64% رہی۔

اس الیکشن کے دوسرے مرحلے میں 6,679,324 لوگوں نے حصہ لیا۔

یہ الیکشن انقلابی قوتوں کے باہمی مقابلے اور دائیں اور بائیں بازووں کے نظریات اور امتیازی رجحانات کے ظہور کا آغاز تھا، جو اگلے انتخابات میں زیادہ واضح طور پر ظاہر ہوا۔

تیسررا پارلیمانی دورہ انتخابات

8 اپریل 1988 کا دن پارلیمنٹ کی تیسری مدت کے انتخابات کا دن تھا۔ اس دور کے انتخابات ہوئے جبکہ ایرانی معاشرہ انتخابات سے قبل اہم واقعات کا تجربہ کر چکا تھا۔ مکہ مکرمہ کا خونی جمعہ، صدارت کی چوتھی مدت میں آیت اللہ خامنہ ای کا صدر منتخب ہونا، میرحسین موسوی کا وزیر اعظم منتخب ہونا اور امام خمینی (رح) کے حکم سے تشخیص مصلحت نظام کونسل کا،قیام

 مجاہدین خلق اور حزب جمہوری اسلامی امام خمینی (رح) کی منظوری سے تحلیل ہوئیں جو کہ اس دور کے اہم واقعات تھے۔

اس الیکشن میں 27 لاکھ 986 ہزار 736 افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 16 لاکھ 714 ہزار 281 افراد نے الیکشن میں حصہ لیا، یعنی 59.72 فیصد۔

اس الیکشن سے متعلق ایک اہم واقعہ یہ تھا کہ اکبر ہاشمی رفسنجانی، جنہوں نے تہران کے نمائندے اور پارلیمنٹ کے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ایران کے صدر منتخب ہوئے۔

چوتھا پارلمانی دورہ انتخابات

ایران نے پارلیمنٹ کے تیسرے اور چوتھے دور کے انتخابات کے درمیان ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا جو انقلاب اسلامی کی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔

آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کا خاتمہ، امام خمینی (رح) کی وفات اور آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر انقلاب کے طور پر انتخاب اور آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی صدارت کا آغاز چوتھی مدت کے پارلیمانی انتخابات کے اہم واقعات میں سے ہے۔

 اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی 32 لاکھ 465 ہزار 558 افراد تھی جن میں سے 18 لاکھ 767 ہزار 42 افراد نے پہلے مرحلے میں الیکشن میں حصہ لیا۔ اس الیکشن میں عوام کی شرکت کی شرح 57.81 فیصد رہی۔

پانچواں پارلمانی دورہ انتخابات

پارلیمنٹ کی پانچویں دور کے انتخابات 8 مارچ 1996 کو چار بڑی جماعتوں کے درمیان مقابلے سے منعقد ہوئے۔

اس مدت انتخابات میں حصہ لینے کے اہل افراد کی تعداد 34 لاکھ 716 ہزار تھی جن میں سے 24 لاکھ 682 ہزار 386 افراد نے ووٹ ڈالا۔ اس دور کے انتخابات میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ 71.1% اہل افراد کی شرکت کی شرح جو کہ پارلیمنٹ کے تمام انتخابات میں شرکت کی سب سے زیادہ شرح ہے۔

  چھٹا پارلمانی دورہ انتخابات

 پارلیمنٹ کی چھٹی مدت کے انتخابات "سید محمد خاتمی" کی پہلی حکومت کے دوران ہوئے۔ انتخابات سے پہلے ملک کو سلسلہ وار قتل، فرانس میں 1998 کے ورلڈ کپ میں ایرانی فٹ بال ٹیم کی ترقی اور ان مقابلوں میں امریکی قومی ٹیم کے خلاف فتح، اور شہر اور گاؤں کے پہلے راؤنڈ کی تشکیل جیسے واقعات قابل ذکر ہیں۔

چھٹے پارلمانی انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پانچویں دور میں منظور ہونے والے قانون کے مطابق  ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 270 سے بڑھ کر 290 ہو گئی۔

 اس الیکشن میں 38 لاکھ 726 ہزار 431 افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 26 لاکھ 82 ہزار 157 افراد نے پولنگ میں شرکت کی۔ اس الیکشن میں لوگوں کی شرکت کی شرح 67.35 فیصد رہی۔

ساتویں پارلمانی دور کے انتخابات

 پارلیمنٹ کی ساتویں مدت کے انتخابات ایسے حالات میں منعقد ہوئے جب اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال پر مغربی ممالک کے غیر روایتی رد عمل اور اس ناقابل تنسیخ حق پر ایران کی تاکید اس وقت کے اہم مسائل میں سے ایک بن گئی تھی۔

دوسری جانب چھٹی پارلیمنٹ کو اس دور کے بعض نمائندوں کے استعفوں اور دھرنوں سے پیدا ہونے والی اشتعال انگیزی کا سامنا تھا۔

اس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 46 لاکھ 351 ہزار 32 افراد اہل تھے جن میں سے 23 لاکھ 734 ہزار 677 افراد نے الیکشن میں حصہ لیا۔ شرکت کی شرح 21.51% رہی۔

آٹھویں پارلمانی دور کے انتخابات

آٹھویں دور کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں، گارڈین کونسل کی منظور کردہ 205 نشستوں میں سے (3 حلقوں میں ووٹ کالعدم قرار دیے گئے)، 29 اصلاح پسند انتخابی امیدوار (14 فیصد کے برابر)، 153 اصول پرست انتخابی امیدوار  (74. 5 فیصد کے برابر) اور 23 آزاد انتخابی امیدوار (11.5 فیصد کے برابر) آٹھویں پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔

انتخابات کے اس عرصے کے دوران، 7 ہزار سے زائد ایرانی شہری، مذکورہ انتخابات کے لیے امیدواروں کی رجسٹریشن کی قانونی مدت کے دوران امیدوار بنے۔ ان میں سے 4500 افراد کی منظوری دی گئی۔ فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق انتخابات میں عوام کی شرکت کی شرح تقریباً 65 فیصد رہی۔

نواں پارلیمانی دورہ انتخابات

 پارلیمنٹ کی نویں مدت کے انتخابات 26 فروری 2016 کو ہوئے۔ اس عرصے میں مقابلہ پارلیمنٹ کی تمام 290 نشستوں کے لیے تھا۔

دسواں پارلمانی دورہ انتخابات

پارلیمنٹ کی دسویں مدت کے انتخابات دو دوروں میں منعقد ہوئے تاکہ اسلامی کونسل کی دسویں مدت کی 290 نشستوں کا تعین کیا جا سکے۔

اس الیکشن کا پہلا مرحلہ ماہرین کی کونسل کی پانچویں مدت کے انتخاب کے ساتھ تھا۔

جس میں ملک کے مختلف دھڑوں نے بھرپور شرکت کی۔ اصلاح پسند دھڑا اور اصول پسند دھڑا 10ویں پارلیمنٹ میں نشستوں کے ایک اہم حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔
 سیاسی رجحان کے لحاظ سے اصلاح پسندوں اور اعتدال پسندوں نے اصول پسندوں کی 120 نشستوں کے مقابلے میں 137 نشستیں حاصل کیں اور 10ویں پارلیمنٹ میں نسبتاً اکثریت حاصل کی۔

گیارہواں  پارلمانی دورہ انتخابات

گیارہویں پارلیمنٹ کے انتخابات 21 فروری 2020ء کو 290 نشستوں کے تعین کے لیے منعقد کیے گئے اور اس کے ساتھ ہی ماہرین کی کونسل کے پانچویں راونڈ کے پہلے عبوری انتخابات بھی ہوئے۔
اس انتخابی دور میں 57,918,159 لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔

News ID 1922222

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha