مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر سید سید ابراہیم رئیسی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 22ویں سربراہی اجلاس میں کہا کہ شنگھائی تنظیم کے اراکین سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ زیادہ سے "زیادہ تعامل اور اتحاد" اور علاقائی اور بین الاقوامی انتظامات میں موثر موجودگی ایران کی خارجہ پالیسی کا محور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے میں بھر پور کردار ادا کر رہا ہے اور اقتصادی کثیرالجہتی کو گہرا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔
ایران کے صدر نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے اہم پلیٹ فارمز کو خصوصی توجہ دیتا ہے جو ایک منصفانہ، برتر اور شراکت داری پر مبنی بین الاقوامی نظام کے قیام کے لیے ہمفکر ملکوں کی کوششوں میں حصہ لینے میں ہماری دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں اقتصادی اور سیاسی کثیرالجہتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور امریکی حکومت اپنے داخلی مطالبات اور قوانین کو بین الاقوامی نظام اور خود مختار ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لئے جبر و زبردستی کا وسیع استعمال کر رہی ہے۔ بلاشبہ، امریکی یکطرفہ رجحان دوسرے ملکوں کو ان کی آزاد اور خودمختار ترقی کے راستے سے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو برتری کے یکطرفہ رجحان اور جابرانہ پابندیوں سے نمٹنے کے لیے نئے حل اور خصوصی اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک اس تنظیم کے اراکین کے درمیان پائیدار تجارت کی تشکیل ہے، جس کے لیے بذات خود مالیاتی تبادلے، اجناس کے تبادلے اور ملکوں کے درمیان اطلاعات و معلومات کے تبادلے کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی مشترکہ تعمیر و توسیع کی ضرورت ہے۔
صدر رئیسی نے علاقائی صورتحال اور اس میں امریکہ کے تخریبی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران ہمارے خطے نے غیر ملکی مداخلت کا کڑوا ذائقہ چکھا ہے اور اس کا نتیجہ دہشت گردی اور عدم تحفظ کے پھیلاؤ کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ اس کا نتیجہ وہی صورتحال ہے جس کا ہم اس وقت افغانستان میں سامنا کر رہے ہیں۔ امریکہ نے نہ صرف افغانستان میں اپنی ناکامی سے سبق نہیں سیکھا بلکہ وہ عدم تحفظ پھیلانے اور مداخلت کی پالیسی کو دوسرے ایشیائی خطوں میں پھیلاتا چلا آرہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایشیا میں سلامتی کا نیا ماڈل "غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت سے پاک مشترکہ ترقی اور کثیرالجہتی کو گہرا کرنے" کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ امن اور ترقی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات پر عمل درآمد کیا جا سکے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ افغانستان اور شام جیسے تجربات سبق آموز ہونے چاہئیں اور ان سے گریز کرنا چاہیے۔ نیٹو کی پالیسیوں پر کسی بھی طرح عمل کرنا مختلف خطوں کے لیے خطرہ ایجاد کرے گا۔ قفقاز کے علاقے میں امن، استحکام اور سلامتی کا قیام اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم نے ہمیشہ علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری کا احترام کرنے اور جمہوریہ آذربائیجان اور جمہوریہ آرمینیا کے درمیان تسلیم شدہ سرحدوں میں کسی بھی تبدیلی کو مسترد کرنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے ان دو ممالک کے اختلاف کو مذاکرات اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پر امن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا۔
ایران کے صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کی باضابطہ رکنیت کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں ایک اہم قدم قرار دیا اور کہا کہ یقیناً شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال اور موثر موجودگی سے اس رکنیت کو اس تنظیم کی تاریخ میں ایک اہم ترین پیش رفت کے طور پر درج کیا جائے گا۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں پاکستان میں حالیہ سیلاب کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ یک بار پھر پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ اپنی اور اپنی قوم کی ہمدردی کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے اجلاس کے کامیاب انعقاد پر ازبکستان کے صدر اور حکام کی کاوشوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
آپ کا تبصرہ