مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارنے سکریٹری دفاع سے استفسارکیاکہ ریٹائرمنٹ کے فورا بعد شجاع پاشا اورراحیل شریف نے کیسے بیرون ملک ملازمت اختیار کرلی، جبکہ قانون کےمطابق 2 سال تک کوئی افسر ملازمت اختیار نہیں کرسکتا۔ پاکستان سپریم کورٹ میں ججز اور سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سکریٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت دینے کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل شجاع پاشا ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد ہی بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے،اتنے بڑے اور اہم ادارے کے سربراہ یوں چلے جاتے ہیں، کیا قانون میں اس کی کوئی ممانعت نہیں؟، راحیل شریف بھی اسی طرح بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق ملازمت ختم ہونے کے دو سال بعد کوئی بھی سرکاری ملازم بیرون ملک جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس قانون کے ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین کو ملازمت کے فوری بعد باہر جانے کی اجازت ہوسکتی ہے، کیا اس قانون کا اطلاق مسلح افواج پر نہیں ہوتا، میرا نہیں خیال کہ وفاقی کابینہ نے کوئی ایسی خصوصی اجازت دی ہے، ہم ایجنسیوں کے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں، ان لوگوں کو تو کئی کئی سال تحفظ ملنا چاہئے، ان کے پاس بڑی حساس معلومات ہوتی ہیں، خدانخواستہ کچھ ہو نہ جائے، معاملے پر غور کرنا ہوگا۔
سکریٹری دفاع نے جواب جمع کرایا کہ فوج میں کوئی اہلکار یا افسر دوہری شہریت کا حامل نہیں اور دہری شہریت رکھنے کی اجازت بھی نہیں، بھرتی کے اشتہار میں واضح لکھا جاتا ہے کہ دہری شہریت کے حامل افراد اہل نہیں، بھرتی کیلئے غیر ملکی شہریت چھوڑنی پڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کسی افسر یا اہلکار نے غلط بیانی کی ہو، تمام اہلکاروں اور افسران کی شہریت کی تصدیق کروائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 27 سرکاری افسران خود کو دہری شہریت کا حامل سمجھتے ہیں، تاہم قانون کے تحت یہ افسران صرف غیر ملکی شہری تصور ہوں گے۔
عدالت نے افسران کی شہریت کی جانچ پڑتال کا حکم دیتے ہوئے 27 غیر ملکی سول افسران کو نوٹس جاری کردیئے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے پاک فوج کے تمام کمیشنڈ افسران اور ان کی بیویوں کی شہریت کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ جنرل راحیل شریف اربوں روپے کےعوض میں سعودی عرب میں کرائے کے فوجی مشیر کے طور پر ملازمت کررہے ہیں۔ سعودی عرب نے راحیل شریف کو امریکی سرپرستی میں نام نہاد اسلامی اتحادی فوج کا جھانسا دیا تھا جو ناکام ہوگیا۔
آپ کا تبصرہ