مہر خبررساں ایجنسی، دفاعی ڈیسک:آج 12 نومبر ایران کے میزائل پروگرام کے بانی شہید حسن تهرانی مقدم کی 14ویں برسی ہے۔ وہ ایک بصیرت افروز عسکری حکمت عملی ساز تھے جنہوں نے اپنے وقت سے آگے سوچا۔ شہید تهرانی مقدم 1959 میں تهران کے مرکزی علاقے سرچشمہ میں پیدا ہوئے اور 1977 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1979 میں انہوں نے شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے مکینیکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور دو سال بعد خواجہ نصیرالدین طوسی یونیورسٹی سے صنعتی انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔
صرف 21 سال کی عمر میں، جب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی تشکیل پائی تو تهرانی مقدم نے شمالی ایران میں تیسرے ریجن کی انٹیلی جنس ڈویژن میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی۔ 1981 میں ثامن الائمہ آپریشن کی کامیابی کے بعد جس میں امریکہ اور مغرب کی حمایت یافتہ بعثی فوج سے آبادان شہر آزاد ہوا، انہوں نے محاذ پر فائر سپورٹ مضبوط کرنے کی فوری ضرورت کو محسوس کیا۔
اسی ضرورت نے انہیں ایک منصوبہ تیار کرنے کی تحریک دی، جو انہوں نے اس وقت کے IRGC انٹیلی جنس چیف حسن باقری کو پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں IRGC آرٹلری کور اور اہواز میں آرٹلری ریسرچ سینٹر قائم کیے گئے، جو ایران کی میزائل صلاحیتوں کی بنیاد ثابت ہوئے۔ تهرانی مقدم نے نہ صرف میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ کئی ایرو اسپیس کمانڈرز کو تربیت دی، جنہوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا۔
میزائل کی تیاری کا آغاز اور بعثی فوج پر اولین ایرانی میزائل سے حملہ
شہید تهرانی مقدم نے IRGC کی آرٹلری قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا، جس میں 155 ملی میٹر اور 130 ملی میٹر ٹریکشن شیلز کے ساتھ ساتھ پرتگالی 105 ملی میٹر شیلز بھی استعمال کیے گئے۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں، جب عراق ایرانی شہروں پر میزائل حملے بڑھا رہا تھا اور اسے مغربی حکومتوں بشمول امریکہ کی حمایت حاصل تھی، ایران نے محدود غیر ملکی مدد کے ذریعے اپنے میزائل دفاع کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ محدود ٹیکنالوجی کے ساتھ سپاہ پاسداران انقلاب نے ان کی بصیرت افروز قیادت میں ایران کے پہلے مقامی میزائل تیار کرنے کا آغاز کیا، اور مارچ 1985 میں پہلا میزائل عراق کے شہر کرکوک پر کامیابی سے داغا گیا۔
دوسرا میزائل بغداد میں ایک 18 منزلہ فوجی عمارت پر لگا، جس کے بعد ایک اور میزائل اسی شہر میں عراق کی فوج کے افسران کے کلب کو نشانہ بنا کر تقریباً 200 بعثی فوجی کمانڈروں کو ہلاک کر دیا، جو ایران کے خلاف جنگ میں ملوث تھے۔ 1986 میں شہید تهرانی مقدم کو IRGC فضائیہ کے میزائل ڈویژن کا کمانڈر مقرر کیا گیا، اور چند ماہ بعد انہوں نے لبنان کی حزب اللہ کی پہلی میزائل یونٹ قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔
جنگ کے آخری دو برسوں میں، انہوں نے قریبی فاصلے کا ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل اور راکٹ آرٹلری نظام نازعات اور عقاب کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
جنگ کا خاتمہ اور میزائل صنعت کی ترقی
جنگ کے بعد شہید تہرانی مقدم نے ایران کی میزائل صنعت کی ترقی کو آگے بڑھایا، میزائل کی حد، تباہی کی قوت اور ٹیکنالوجی میں اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں شہاب اور زلزال میزائل سیریز متعارف ہوئیں۔ 1980 کی دہائی میں ایران کے پاس عقاب 45 کلومیٹر اور نازعات 100 کلومیٹر کی رینج کے ساتھ موجود تھے۔ ان میزائلوں سے بعد میں 1990 کی دہائی کے آخر میں درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کے لیے بنیاد ملی اور اگلی دہائی میں عاشورا اور سجیّل جیسے نئے ماڈلز کی تخلیق کی راہ ہموار ہوئی۔
شہید تہرانی مقدم کی کوششوں کے نتیجے میں ایران چند ہی سالوں میں ایک بڑی میزائل طاقت کے طور پر ابھرا، جس کے پاس وسیع میزائل اسلحہ موجود ہے جو صہیونی حکومت سمیت ہر دشمن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
ایرانی میزائل صنعت کے بانی کی شہادت
حسن تهرانی مقدم 12 نومبر 2011 کو تہران کے مغرب میں واقع شہر ملارد کے امیر المومنین گارنیر میں اپنے 16 ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ تهرانی مقدم اور ان کے شہید ساتھیوں کو تہران کے بہشت زہرا قبرستان میں اعلی ترین سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا، جہاں زیادہ تر شہداء 1980 کی دہائی کی جنگ کے دوران شہید ہوئے تھے۔
شہید تهرانی مقدم کی ایک خواہش تھی: جب میں مر جاؤں تو میری قبر پر لکھا جائے: یہاں وہ شخص مدفون ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔’
شہید تهرانی مقدم اور ان کی ایجادات کا ثبوت 12 روزہ جنگ کے دوران بھی واضح تھا، جب سینکڑوں ایرانی میزائل مقبوضہ علاقوں پر گرائے گئے، جو اسرائیل اور امریکہ کے کثیر تہوں پر مشتمل حفاظتی نظام کو پار کرگئے۔
آج ایران کا طاقتور میزائل اور خلائی پروگرام، جو بلا شبہ دنیا میں بہترین ہے، اس عظیم کمانڈر کی شاندار کوششوں اور قربانی کا ثمر ہے۔
آپ کا تبصرہ