9 نومبر، 2025، 11:29 PM

مہر خبررساں ایجنسی کی خصوصی رپورٹ:

یونیسکو کی فہرست میں شامل 17 ایرانی مساجد، اسلامی فن تعمیر کا شاہکار قرار

یونیسکو کی فہرست میں شامل 17 ایرانی مساجد، اسلامی فن تعمیر کا شاہکار قرار

ایران کی 17 تاریخی مساجد کو یونیسکو کی عارضی عالمی ورثہ فہرست میں شامل کرلیا گیا، جن کی منفرد اسلامی-ایرانی طرزِ تعمیر، قبل از اسلام عناصر اور روحانی پہلوؤں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: ایران کی 17 تاریخی مساجد کو یونیسکو کی عارضی عالمی ورثہ فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ مساجد ایران کے مختلف شہروں میں واقع ہیں جن میں مسجد جامع اصفہان، مسجد شیخ لطف اللہ، مسجد جامع یزد، مسجد جامع نطنز، مسجد جامع سمنان، مسجد جامع اردستان، مسجد جامع نائین، مسجد جامع نی‌ریز، مسجد جامع ساوہ، تاریخانہ دامغان، مسجد آقا بزرگ، مسجد سپہ سالار، مسجد ملک زوزن، مسجد جامع زواره، مسجد جامع گناباد، مسجد جامع فہرج اور مسجد امام (سابقہ مسجد شاہ) شامل ہیں۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ایران کی جانب سے یونیسکو کو 36 تاریخی مساجد پر مشتمل ایک جامع فہرست پیش کی گئی، جن میں سے 17 کو ابتدائی طور پر عارضی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

معاون میراثِ ثقافت علی دارابی کے مطابق، باقی مساجد کی دستاویزات بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ یونیسکو کو پیش کردہ رپورٹ میں ایرانی مساجد کی فن تعمیر کی انفرادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  ایرانی مساجد کا ڈیزائن نہ صرف اسلامی اصولوں پر مبنی ہے بلکہ اس میں قبل از اسلام ایرانی فنِ تعمیر، آتشکدہ طرز، حجازی عناصر اور اسلامی روحانیت کا حسین امتزاج بھی شامل ہے۔ ان مساجد میں ابتدائی اسلامی دور کی ستون دار شبستانی طرز کی جھلک بھی نمایاں ہے، جبکہ بعض مساجد کو مکمل طور پر "ایرانی مسجد" کی حیثیت حاصل ہے۔

ماہرین کے مطابق، ایرانی مساجد نہ صرف فنِ تعمیر کی شاہکار مثالیں ہیں بلکہ اسلامی دنیا میں مسجد کے تصور کی ارتقائی تاریخ کا بھی اہم حوالہ ہیں۔ ایرانی اسلامی فن تعمیر بالعموم اور ایرانی مساجد کی فنِ تعمیر بالخصوص کو ایران کی قبل از اسلام مقامی ثقافت سے متاثر سمجھا جانا چاہیے۔ طاقوں اور مختلف اقسام کے محرابوں کا استعمال، مربع (یا کثیرالاضلاع) بنیاد پر گنبد کی تعمیر، اور ایوان کا تصور وہ بنیادی عناصر ہیں جو قبل از اسلام دور سے اسلامی فنِ تعمیر میں منتقل ہوئے ہیں۔

چار ایوانی طرز کی مساجد کا ڈیزائن بھی قدیم اشکانی (250 قبل از مسیح تا 250 عیسوی)، ساسانی (224 تا 652 عیسوی)، اور حتیٰ کہ ہخامنشی دور (559 تا 321 قبل از مسیح) کے ایوانی طرزِ تعمیر سے متاثر ہے۔ تزئینات کے لحاظ سے بھی اسلامی دور میں کوئی بالکل نیا رجحان نہیں آیا؛ مثلاً کاشی کاری کی صنعت ہخامنشی اور ایلامی دور سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ گچ کاری ساسانی دور سے ماخوذ ہے۔ اسلام کے ایران میں پھیلاؤ کے بعد، ایرانی معماروں اور ہنرمندوں نے اپنی قدیم روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کام جاری رکھا۔

ایرانی مساجد کے تعمیراتی ارتقاء کے مراحل

ایرانی مساجد نے تقریباً 1200 سال کے دوران مختلف ارتقائی مراحل طے کیے اور متنوع تعمیراتی طرز اختیار کیے۔ ان مراحل کو درج ذیل انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے:

شبستانی مساجد (پہلی و دوسری صدی ہجری): مسجد جمعہ شوش، سیراف، ساوہ
بہتر شبستانی مساجد (تیسری و چوتھی صدی ہجری): تاریخانہ دامغان، مسجد جمعہ فہرج، نائین
گنبددار و ایوان دار مساجد (چوتھی و پانچویں صدی ہجری): مسجد جمعہ نی‌ریز، نطنز  
شبستانی طرز کی ترقی یافتہ گنبددار و ایوان دار مساجد (پانچویں و چھٹی صدی ہجری): مسجد جمعہ اصفہان، قزوین، گلپایگان، زواره، اردستان  
مستحکم ایوان دار مساجد (ساتویں و آٹھویں صدی ہجری): مسجد جمعہ گناباد، یزد، اشترجان، ورامین، کرمان  
مکمل طور پر مزین ایوان دار مساجد (نویں و دسویں صدی ہجری): مسجد گوہرشاد، امیرچخماق، کبود  
ایرانی مساجد کا عروج (گیارہویں و بارہویں صدی ہجری): مسجد شاہ، مسجد حکیم (اصفہان)  
آخری تعمیراتی مراحل (تیرہویں و چودہویں صدی ہجری): مسجد النبی (قزوین)، مسجد آقابزرگ (کاشان)، مسجد سلطانی (سمنان)، مسجد-مدرسہ سپہسالار

ایرانی مساجد کی منفرد خصوصیات میں چار ایوانی نقشہ (جو ممکنہ طور پر ایرانی باغ کے نقشے سے مشابہت رکھتا ہے)، رنگ برنگے گنبد، محرابیں، فوارے، حوض، خوشنویسی، ایوان، تعمیر اور تزئین میں اینٹوں کا استعمال، لعاب دار ٹائلیں اور نفیس کاشی کاری شامل ہیں۔ اس فہرست میں شامل ہر مسجد، ایران میں مساجد کی طویل تعمیراتی تاریخ کے ایک خاص مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔  
مسجد جامع فہرج ایران کی قدیم ترین باقی رہنے والی مساجد میں سے ایک ہے، جو ستونوں اور نعل دروازوں سے طاقوں پر لکڑی کے چھتوں کی طرف منتقلی کے ایک اہم ارتقائی مرحلے کو ظاہر کرتی ہے۔  
مسجد تاریخانہ دامغان (صوبہ سمنان) نویں صدی میں مساجد کی تعمیر میں بنیادی ساختی عنصر کے طور پر ستونوں سے جرزوں کی تبدیلی کی علامت ہے۔ زرتشتی آثار قدیمہ کے ذرائع، مقدس مقامات پر قبضے کی روایات، اور اس مسجد کی ساختی عناصر کی قبل از اسلام ایرانی فنِ تعمیر سے مماثلت، خاص طور پر تپہ حصار دامغان میں ساسانی محل کے تناظر میں، اس مسجد کو ساسانی دور سے منسلک کرتی ہے۔  
مسجد جامع ساوہ کا ابتدائی مرحلہ پہلی صدی ہجری میں تعمیر ہوا۔ مختلف تاریخی ادوار میں، اس مسجد نے ہر دور کی مخصوص تزئینات اور فنِ تعمیر کے مطابق خود کو ڈھالا اور اپنی بنیادی عبادتی حیثیت برقرار رکھی۔

مسجد جامع نی‌ریز (صوبہ فارس) کم از کم تین تعمیراتی مراحل سے گزری ہے، جن میں آل بویہ، سلجوقی اور ایلخانی ادوار شامل ہیں۔ ایرانی مساجد میں ایوان کے داخلے کی ابتدائی علامات اسی مسجد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کا محراب 340 ہجری کا ہے، جو آل بویہ دور سے تعلق رکھتا ہے۔ بعد میں ستون دار شبستان، مسطح چھت اور شمالی ایوان تعمیر کیے گئے۔ شمال مغربی ایوان، جو محراب کی سمت واقع ہے، بعد میں تعمیر ہوا، اور اس کے بعد صحن کے ساتھ ساتھ دیواروں میں دو قطاروں میں طاقوں کا اضافہ کیا گیا۔

مسجد جامع (جمعہ مسجد) جو اصفہان کے تاریخی مرکز میں واقع ہے اور 2012 میں یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہوئی، بارہ صدیوں پر محیط ایرانی مسجدی فنِ تعمیر کی ترقی کا شاندار نمونہ ہے۔ 841ء میں تعمیر شدہ یہ مسجد ایران میں اپنی نوعیت کی قدیم ترین محفوظ عمارت ہے اور وسطی ایشیا میں بعد میں بننے والی مساجد کے لیے ایک ابتدائی نمونہ سمجھی جاتی ہے۔

مسجد جامع اردستان ابتدائی اسلامی دور کی ایک عمارت ہے جو وقت کے ساتھ مختلف اضافوں سے گزری ہے۔ موجودہ معماری شواہد کے مطابق، اس مسجد کی ابتدائی ساخت دوسری صدی ہجری کی ہے۔ اس لیے اس کا نقشہ شبستانی ہے، جس میں ستونوں پر مشتمل ہال، مرکزی صحن اور اطراف میں سرپوشیدہ جگہیں شامل ہیں۔ 553 اور 555 ہجری میں اس میں گنبد اور ایوان کا اضافہ ہوا، اور بعد میں یہ مسجد چار ایوانی طرز میں تبدیل ہوگئی۔

مسجد جامع زواره، جو شہر زواره کے مرکز میں واقع ہے، چار ایوانی طرز کی سب سے قدیم تاریخ شدہ مثال ہے۔ اس کی تعمیر 530 ہجری (1135ء) میں ہوئی۔ اس مسجد کے بانی ابوطاہر حسین بن غالی بن احمد تھے۔

مسجد جامع یزد کا مجموعہ شہر یزد کے مرکز کے قریب واقع ہے۔ اگرچہ اس کی بنیاد بارہویں صدی میں رکھی گئی، لیکن موجودہ عمارت 1324ء میں ایلخانی دور میں تعمیر ہوئی اور بعد میں مظفری دور میں مکمل ہوئی۔ اس مسجد کی نمایاں خصوصیت اس کا بلند مشرقی ایوان ہے، جس کے دونوں جانب دو بلند میناریں ہیں۔

مسجد جامع گناباد صوبہ خراسان کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ مسجد خوارزم شاہی دور (1075–1230ء) کی ایک قیمتی یادگار ہے، جو زلزلے سے متاثر ہوئی اور کئی بار مرمت کی گئی۔ اس کی بڑی مرمت قاجاری دور (1779–1924ء) میں ہوئی۔ یہ مسجد دو ایوانوں پر مشتمل ہے اور ایک وسیع صحن رکھتی ہے۔

مسجد جامع زوزن (خواف، خراسان) کی باقیات ساتویں صدی ہجری کے اوائل کی ہیں۔

میدان امام (نقشِ جہان)، جو شاہ عباس اول نے سترہویں صدی کے آغاز میں تعمیر کروایا، 1979 میں یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہوا۔ یہ میدان مسجد شاہ (مسجد سلطنتی)، مسجد شیخ لطف اللہ، قیصریہ ایوان اور تیموری دور کے محل سے گھرا ہوا ہے۔ مسجد شاہ، جو میدان کے جنوبی جانب واقع ہے، قبلہ کی سمت زاویہ دار ہے اور صفوی دور کی رنگین ایرانی فنِ تعمیر کی سب سے مشہور مثال سمجھی جاتی ہے۔

مسجد شیخ لطف اللہ میدان کے مشرقی جانب واقع ہے اور شاہی خاندان کے لیے نجی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی۔ یہ صفوی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے، جسے 1622ء میں شیخ لطف اللہ کے نام سے منسوب کیا گیا، جو ایک ممتاز عالم اور شاہ عباس کے سسر تھے۔ بعض مورخین کے مطابق، یہ مسجد شاہی خواتین کے لیے مخصوص عبادت گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔

مسجد آقا بزرگ کاشان کے تاریخی مرکز میں واقع ایک مسجد و مدرسہ ہے، جو معروف عالم ملا مهدی نراقی دوم (آقا بزرگ) کے نام سے منسوب ہے۔ یہ عمارت شمال مغرب سے جنوب مشرق کی سمت ایک لمبے مستطیل قطعے پر قائم ہے، جس کے وسط میں دو منزلہ گہرا صحن (زمین سطح اور بالکونی) واقع ہے۔

مسجد سپہسالار تہران میں واقع ایک جامع مسجد اور مدرسہ ہے، جو میرزا حسین خان سپہسالار قزوینی، ناصرالدین شاہ قاجار کے وزیرِ اعظم، کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مسجد چودہویں صدی ہجری میں قدیم ایرانی فنِ تعمیر کی تکنیکوں سے تعمیر کی گئی۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق، اس کی ابتدائی تعمیر 1296 ہجری (1879ء) میں شروع ہوئی، جو 1300 ہجری (1890ء) کے بعد بھی جاری رہی۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد اس مسجد کا نام تبدیل کر کے "مسجد شہید مطہری" رکھ دیا گیا۔

یہ مجوزہ مساجد ان ایرانی مساجد میں شامل ہیں جو سب سے زیادہ نمایاں، مؤثر اور منفرد ہیں، اور جو اسلامی دور کے آغاز سے لے کر حالیہ ادوار تک ایرانی مسجدی فنِ تعمیر کی ترقی کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ مجموعہ نہ صرف ایران میں مسجد سازی کی منفرد تکنیکی ترقیات کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ وہ مخصوص فنِ تعمیراتی خصوصیات بھی پیش کرتا ہے جن کی جڑیں ایران کے قبل از اسلام دور میں پیوست ہیں۔

اس کے علاوہ، یہ مجموعہ ایرانی ثقافت کی اس اہمیت اور اثرات کو بھی اجاگر کرتا ہے جو اسلامی فنون کو دنیا بھر میں فروغ دینے میں مددگار رہی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی دکھاتا ہے کہ ایرانی فن و ثقافت نے اسلامی مفاہیم اور حکمت سے کس طرح اثر قبول کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران میں اسلام کے بعد سب سے غالب اور نمایاں تعمیراتی انداز مسجد سازی میں ظاہر ہوا، اور ان دونوں کے امتزاج نے ایک منفرد اور خوبصورت فنِ تعمیراتی طرز کو جنم دیا۔

یہ ارتقاء تاریخانہ دامغان سے شروع ہوتا ہے، اور مسجد جامع اصفہان جیسے شاندار نمونوں تک پہنچتا ہے، یہاں تک کہ جدید اور معاصر ایرانی فنون کے امتزاج کے ساتھ حالیہ مساجد میں بھی اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے "مسجد ایرانی" کی عالمی اہمیت اور قدر و قیمت بخوبی واضح ہوتی ہے۔

ایرانی مساجد اور دیگر اسلامی ممالک کی مساجد میں مماثلتوں کا جائزہ

ایرانی مسجد کا نقشہ دیگر اسلامی ممالک کی مساجد سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، چار ایوانی طرز کی مساجد ایک بڑے کھلے صحن کے گرد تعمیر کی جاتی ہیں، جس کی ہر دیوار پر ایک عظیم محرابی ہال ہوتا ہے۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے، اس مجموعے کی ہر مسجد کو ایران کے مختلف تاریخی ادوار کی دیگر مساجد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح، ان مساجد کی مماثلتوں، اختلافات، ان کے ناموں کی حیثیت اور مسجد ایرانی کے ارتقائی سفر میں ان کے مقام پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔

ایسی مساجد جن سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، ان میں شامل ہیں:
مسجد جامع ہرات (افغانستان)
مسجد ابن طولون (قاہرہ، مصر)
مسجد بی بی خانم (سمرقند، ازبکستان)
مسجد کالیان (بخارا، ازبکستان)
مسجد آبی (ایروان، آرمینیا)
مسجد سلیمیہ اور اس کا کمپلیکس (ترکی، 2011 میں عالمی ورثہ میں شامل)
مسجد باقرحات (بنگلہ دیش)

اسی طرح، مسجد نبوی (مدینہ) جیسے قدیم ترین مساجد سے لے کر ایشیا، افریقہ اور یورپ میں مختلف مسجدی فنِ تعمیر کے اندازوں تک مسجد ایرانی کے ساتھ مماثلتیں اور فرق تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایران کی چند مساجد جیسے مسجد شیخ لطف اللہ، مسجد شاہ (امام) اور مسجد جامع اصفہان پہلے ہی یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہوچکی ہیں۔

News ID 1936392

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha