مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراق میں ۱۱ نومبر کو پارلیمانی انتخابات ہوں گے، جن میں ۷۷۶۸ امیدوار ۳۲۹ نشستوں کے لیے حصہ لیں گے۔ ان میں سے ۹ نشستیں مذہبی اور نسلی اقلیتوں جیسے مسیحیوں، ایزدیوں، مندائیوں اور کردوں کے لیے مخصوص ہیں۔
یہ انتخابات صرف داخلی معاملہ نہیں ہیں، کیونکہ بعض علاقائی اور عالمی طاقتیں انتخابات کے نتائج پر اثر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امریکہ
واشنگٹن انتخابات میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے۔ اس میں خفیہ اجلاس منعقد کرنا اور مخصوص گروہوں کو مالی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ امریکہ عراق کی سیاست اور حکومت پر اثر ڈالنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کر رہا ہے:
1. مالی وسائل اور ڈالر کے ذریعے عراق کی معیشت اور عوام کی زندگی پر دباؤ ڈالنا۔
2. فوجی تربیت اور امداد دینا، شرط یہ کہ مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے۔
3. خاص شخصیات اور پروگراموں کی حمایت کے ذریعے سیاسی اثر ڈالنا۔
ترکی
ترکی بھی انتخابات میں کھل کر مداخلت کر رہا ہے اور ترکمن اور کچھ سنی جماعتوں کی حمایت کر رہا ہے۔ آنکارا شمالی عراق میں اپنا اثر مضبوط کرنے کے لیے کرد علاقوں کے ساتھ تنازعات کو سیاسی فائدے میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی کی مداخلت صرف انتخابات تک محدود نہیں، بلکہ توانائی، سرحدی سیکیورٹی اور نقل و حمل کے امور تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔
خلیج فارس کے عرب ممالک
عراق میں خلیج فارس کے عرب ممالک بھی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ برقی منصوبے، سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کے ذریعے سیاسی اور اقتصادی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ کسی مخصوص جماعت کی حمایت نہیں کرتے، لیکن انتخابات کے نتائج کو عراق کی داخلی صورتحال اور علاقائی تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
قطر نے اپنی کوششیں زیادہ چھپانے کی کوشش کی ہے، لیکن تیل کے وسائل کے ذریعے انتخابات پر اثر واضح ہے اور یہ سنی جماعتوں کی حمایت بھی کر رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ