مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ نئی پارلیمنٹ میں اقلیتوں اور خواتین کی نمائندگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انتخابات دہشت گرد ابو محمد جولانی کے زیرِ سایہ منعقد ہوئے، جس سے ملک میں جمہوری عمل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
شامی الیکشن کمیشن کے مطابق ابتدائی نتائج کے مطابق 119 نمائندے منتخب ہوئے، جن میں صرف 6 خواتین اور 4 اقلیتی نمائندے شامل ہیں۔ یہ انتخابات فقط جولانی زیر کنٹرول علاقوں میں برگزار کرائے گئے، جس کی وجہ سے تمام طبقات کے منصفانہ حصہ لینے کے امکانات محدود رہ گئے۔
ماہرین کے مطابق یہ انتخابات عرب دنیا کے بعض ممالک کے انتخابی ماڈل کی نقل ہیں، جن میں منتخب ہونے والے نمائندے عوام کے حقیقی ترجمان نہیں، بلکہ جولانی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مخصوص پالیسیوں کی توثیق کرتے ہیں۔
انتخابات کے دوران امیدواروں پر سخت پابندیاں، سیکیورٹی اور سماجی دباؤ کے ساتھ مخصوص گروہوں کی کامیابی یقینی بنائی گئی، جبکہ اصلاحات کے تحت پارلیمنٹ کے ایک تہائی ارکان براہِ راست جولانی کے ذریعے منتخب ہوں گے۔
ابو محمد جولانی نے انتخابات کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عوام اب ملک کی تعمیر نو کر سکتے ہیں، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابی عمل صرف جولانی کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہے، نہ کہ شامی عوام کی ترجمانی کے لیے۔
آپ کا تبصرہ