11 اگست، 2025، 5:49 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ کے فلسطینیوں کے معاشی قتل عام میں شریک پانچ مسلم ممالک

غزہ کے فلسطینیوں کے معاشی قتل عام میں شریک پانچ مسلم ممالک

غزہ میں نسل کشی اور خطے میں صہیونی جارحیت کے باوجود ترکی، عرب امارات، مصر، آذربائیجان اور ملائیشیا اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں گذشتہ 21 ماہ سے جاری صہیونی نسل کشی اور مغربی ایشیا کے جغرافیائی و سیاسی نظام کو بدلنے کی کوششوں کے باوجود، بعض مسلمان حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں اور بعض معاملات میں اس میں اضافہ بھی کررہی ہیں۔

 غزہ میں بے گناہ شہریوں کے قتل عام، یمن، لبنان اور شام میں مزاحمتی فورسز کے خلاف بے دریغ فوجی کارروائیوں اور ایران کی سرزمین پر براہ راست حملوں کے باوجود، کچھ مسلم حکومتیں اب بھی یہ خیال رکھتی ہیں کہ اس قابض و مجرم حکومت کے ساتھ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں۔

اگر مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو جدول کی شکل میں رکھا جائے تو ترکی، متحدہ عرب امارات، مصر، جمہوریہ آذربائیجان اور ملائیشیا سب سے اوپر ہیں۔ عالمی اقتصادی تجزیاتی پلیٹ فارم کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ترکی کا اسرائیل کے ساتھ تجارتی حجم 6 ارب 600 ملین ڈالر رہا، جس میں 5 ارب 300 ملین ڈالر برآمدات اور 1 ارب 300 ملین ڈالر درآمدات شامل تھیں۔

یہ بڑا حجم اگلے سال کچھ کم ضرور ہوا تاہم مجموعی تجارت 2 ارب 600 ملین ڈالر سے زیادہ رہی۔ اس کا بڑا حصہ تیسرے ممالک کے ذریعے یا فلسطین کو بطور منزل ظاہر کرکے انجام دیا گیا۔

یاد رہے کہ ترکی سیاسی سطح پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کی مکمل معطلی کا اعلان کرچکا ہے، لیکن اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تعلقات اب بھی حسب سابق مستحکم ہیں اور ترکی اب بھی اسرائیل کے سب سے بڑے مسلمان تجارتی شریک ہے۔

درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے، جس نے 2023 میں "Observatory of Economic Complexity (OEC)" کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تقریباً 1.97 ارب ڈالر کی تجارت کی۔ اس میں سے 1.4 ارب ڈالر برآمدات اور 575 ملین ڈالر درآمدات شامل تھیں۔ اگلے سال جب غزہ میں خونریز نسل کشی جاری تھی، تو امارات کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب امارات امریکہ کے اس منصوبے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جس کا مقصد مستقبل میں غزہ کی نگرانی اور انتظام سنبھالنا ہے۔

تیسرے نمبر پر مصر ہے، جس نے 2023 میں 1.9 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت کی۔ اس میں سے اسرائیل کی طرف سے مصر کو 1.7 ارب ڈالر کی برآمدات تھیں، جبکہ مصر کی اسرائیل کو صرف 200 ملین ڈالر کی برآمدات تھیں۔ تاہم، اگلے سال مصر کی اسرائیل کو برآمدات میں دوگنا اضافہ ہوا۔

چوتھے نمبر پر آذربائیجان ہے، جو اسرائیل کا ایک اہم اقتصادی اور عسکری اتحادی ہے۔ 2023 میں آذربائیجان نے اسرائیل کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کی، جس میں 1.4 ارب ڈالر کی برآمدات اور 150 ملین ڈالر کی درآمدات شامل ہیں۔ عسکری و سیکورٹی تعاون کی بنا پر یہ امکان ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اصل تجارتی حجم اس سے بھی زیادہ ہو۔ اسرائیل آذربائیجان کا سب سے ہتھیار سپلائی کرتا ہے جبکہ آذربائیجان اسرائیل کو خام تیل فراہم کرتا ہے، جو اسرائیل میں فضائی جنگی جہازوں کے ایندھن میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس تیل کی مدد سے اسرائیل غزہ، لبنان، یمن اور ایران میں مسلح کارروائیاں انجام دیتا ہے۔ 

قابل ذکر ہے کہ آذربائیجان کی اسرائیل کو برآمدات کا 98 فیصد سے زائد حصہ خام تیل ہے، جو اسرائیل کے جنگی آپریشنز کے لیے ایک اہم توانائی ذریعہ ہے۔

اس فہرست میں پانچواں نمبر پر ملائشیا ہے۔ وہ ملک جو چار دیگر مسلم ممالک کے برعکس اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود 2023 میں ملائشیا اور اسرائیل کے درمیان تقریبا 377 ملین ڈالر کا تجارتی لین دین ہوا۔ اگرچہ یہ رقم دیگر چار ممالک کی نسبت کم ہے، لیکن ملائشیا کی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی کے پیش نظر یہ تجارت قابل غور ہے۔

اس میں سے 352 ملین ڈالر برآمدات اور 25 ملین ڈالر درآمدات شامل ہیں۔ اگلے سال یہ رقم قابل ذکر حد تک بڑھ کر 458 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔

یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک صرف وہ پانچ ممالک نہیں ہیں جن کا ذکر یہاں ہوا، بلکہ اور بھی کئی ایسے ممالک ہیں جن کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط قائم رکھتی ہیں۔ تاہم، یہ پانچ ممالک اس معاملے میں خاص طور پر نمایاں ہیں کیونکہ ان کی تجارتی حجم اور سطح بہت زیادہ ہے، جو ان کے سیاسی بیانات اور عوامی توقعات کے برعکس ہے۔

اتنی بڑی مقدار میں اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنا ان ممالک کے لیے ایک بہت بڑی شرمندگی اور بدنامی کی بات ہے، کیونکہ یہ تعلقات ایک ایسے ملک کے ساتھ ہیں جو غزہ میں معصوم بچوں، خواتین، اور عام شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد کر رہا ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی کی خبروں کے دوران، جب دنیا بھر میں اس ظلم کی مذمت کی جا رہی ہے، ان مسلم ممالک کا اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات رکھنا اخلاقی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کو جنگی جہازوں اور دیگر عسکری سازوسامان کے لیے ایندھن فراہم کرنا اس تجارت کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے کیونکہ یہ ایندھن براہ راست ان جنگی کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہے جن سے بے گناہ شہری متاثر ہوتے ہیں۔

یہ معاملہ محض ان حکومتوں کی بدنامی کا باعث نہیں بلکہ ان ممالک کی عوام کی بھی بدنامی ہے۔ کیونکہ عوام کی خاموشی اور بے عملی ان تعلقات کو ممکن بناتی ہے۔ جب عوام اپنے حقوق، انسانی ہمدردی اور انصاف کے لیے آواز بلند نہیں کرتے، تو حکومتیں اپنی پالیسیوں کو جاری رکھنے میں آزاد ہوتی ہیں۔ اس طرح عوام بھی اس ظلم کے حصہ دار بن جاتے ہیں۔ لہذا یہ ایک بہت بڑا اخلاقی اور سیاسی چیلنج ہے کہ مسلم حکومتیں اور عوام دونوں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں، اپنی پالیسیوں اور رویوں کا جائزہ لیں، اور فلسطینیوں کے حق میں کھل کر آواز اٹھائیں تاکہ اس طرح کی خونریز اور ناجائز تجارت کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور مظلوموں کو انصاف مل سکے۔

News ID 1934795

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha