3 اگست، 2025، 10:04 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے وعدے کے سائے میں اسرائیلی قبضے کی سازشیں تیز

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے وعدے کے سائے میں اسرائیلی قبضے کی سازشیں تیز

جب دنیا فلسطین کو تسلیم کرنے کی بات کر رہی ہے، اسرائیل خاموشی سے مغربی کنارے اور غزہ کے نئے علاقوں کو ہڑپنے کی تیاری میں ہے؛ جنگ بندی کی ناکامی اور عالمی بےحسی نے صہیونی توسیع پسندی کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فلسطین کے مسئلے میں سب سے خطرناک تضاد مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش اور اس کے مقابلے میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کے طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے بعض علاقوں کو مقبوضہ سرزمین میں ضم کرنے کا ارادہ ہے۔ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں جمود اور دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی مہم کے جواب میں نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت نے جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ صہیونی حکومت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے اور غزہ کے کئی علاقوں کو اسرائیلی حدود میں شامل کرنے کی خواہاں ہے۔

 صہیونی فوجی ادارے کی جانب سے حماس کی طرف سے مسلط کردہ جنگ بندی کو نہ ماننے کی صورت میں غزہ کے علاقوں کے الحاق کی دھمکی، اور کنسٹ کی جانب سے یہودیہ و سامرہ پر اسرائیلی حاکمیت بڑھانے کے قانون کی علامتی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نہ صرف موقع کا فائدہ اٹھا رہا ہے بلکہ عالمی برادری کی کمزوری اور خاموشی کو بھی اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔

30 جولائی 2025 کو امریکہ میں ان ممالک کا اجلاس منعقد ہوا جو مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کے حامی ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ آج کی عالمی سفارتکاری کے سب سے اہم معاملات میں سے ایک سمجھا جارہا ہے۔ اس اجلاس میں سعودی عرب، فرانس اور برطانیہ جیسے مؤثر ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ اس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے مابین دو علیحدہ ریاستوں کے قیام کے لیے کوششوں کو تیز کرنا، غزہ میں جاری تنازع کو ختم کرنا اور اس علاقے میں اقتدار کی منتقلی کے لیے ایک عملی نظام کی تشکیل تھا۔

اس اجلاس کے بنیادی اہداف درج ذیل تھے:

1. دو ریاستی حل کو تقویت دینا:

1967 سے قبل کی سرحدوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں، بالخصوص قرارداد 242 اور 338 کی بنیاد پر آزاد ریاست فلسطین کے قیام پر زور دینا، جن میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے انخلا کی بات کی گئی ہے۔

2. پائیدار جنگ بندی کا قیام:

غزہ میں جاری جھڑپوں کو روکنے، جنگی قیدیوں کے تبادلے اور عام شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں۔

3. انتقال اقتدار کے لیے نگران نظام کی تشکیل:

اجلاس میں اس بات پر بھی گفتگو ہوئی کہ حماس سے فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے ایک بین الاقوامی نگران کمیٹی تشکیل دی جائے، جو غزہ میں حکومتی اور سیکورٹی کے ڈھانچے قائم کرنے میں مدد دے۔

یہ تمام اقدامات قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام اور کثیرالجہتی اصولوں کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں، جن میں عالمی قراردادوں کا احترام، تسلیم شدہ سرحدوں کی پاسداری، اور عالمی تعاون کے ذریعے تنازعات کا حل شامل ہے۔

گریٹر اسرائیل کا نظریہ پس منظر سے منظر عام پر

جب ٹرمپ حکومت نے شام کے علاقے جولان پر صہیونی حکومت کے قبضے کو تسلیم کرتے ہوئے اسے غاصب صہیونی حکومت کا حصہ قرار دیا، تو متعدد ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اقدام دراصل خطے کی حکومتوں اور عالمی برادری کے ردعمل کو جانچنے کی غرض سے کیا گیا، تاکہ اصل منصوبے یعنی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے الحاق کی راہ میں تل ابیب کو کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔

سن 2005 سے اب تک صہیونی الٹرا آرتھوڈوکس حلقے غزہ میں صہیونی بستیاں دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں، لیکن مزاحمتی قوتوں کی موجودگی کے باعث ان کی یہ خواہش ہر بار ناکام ہوئی۔ تاہم اب جب کہ غزہ کی 80 فیصد رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صہیونی حکومت امریکی حمایت کے ساتھ اس خطے کے باشندوں کی جبری نقل مکانی اور پھر غزہ کے مکمل یا جزوی قبضے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

بعض عبرانی ذرائع کے مطابق، اگر تل ابیب غزہ کو مکمل طور پر ضم نہ بھی کرے، تب بھی فلسطینی آبادی کو جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا جائے گا، جہاں وہ ایک طرح کے جبری مشقت کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے اور ان کی بقا ایک مسلسل جنگ بن جائے گی۔

جب سے امریکی مذاکرات کار اسٹیو وٹکاف نے جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت نے تسلیم کرو یا قبضے کے دائرے کو وسعت دو جیسی دو دھاری تلوار کو بطور ہتھیار اپنا لیا ہے۔

مغربی کنارے کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جب بتسلئیل سموتریچ نے وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں فوجی انتظامات کی ذمہ داری سنبھالنے کا مطالبہ کیا، تو پہلی بار یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسرائیل اس علاقے کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔

یہ انتہا پسند رہنما اپنے ساتھی ایتمار بن گویر کے ہمراہ مغربی کنارے کو مزاحمتی تحریکوں کی سرگرمیوں کا مرکز سمجھتے ہوئے فوج اور جنگی کابینہ کی مشاورت سے مشرقی لشکر کے قیام میں مصروف ہیں۔

طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج نے ایران کے ممکنہ خطرے کو جواز بناتے ہوئے جنین جیسے علاقوں میں کئی آپریشنز کیے ہیں، جن کے دوران متعدد فلسطینی مجاہدین کو شہید یا گرفتار کیا گیا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ واپسی کے بعد صہیونی شدت پسند مغربی کنارے کو مکمل طور پر اسرائیل میں ضم کرنے کے دیرینہ خواب کی تعبیر کو قریب تر محسوس کر رہے ہیں۔ صہیونی پارلیمنٹ کنسٹ کی حالیہ قرارداد، جس میں مغربی کنارے پر اسرائیلی حاکمیت کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا ہے اگرچہ علامتی کیوں نہ ہو، مگر عملی طور پر اس سمت میں ایک مؤثر قدم ہے۔

جرمنی نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل الحاق کے منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھتا ہے، تو برلن بھی پیرس اور لندن کی مانند فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی مہم میں شامل ہوجائے گا۔ جرمنی کا یہ واضح مؤقف اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ صہیونی حکومت فلسطین کے جغرافیائی وجود کو بدلنے کے عزم میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔

موجودہ حالات میں مسئلۂ فلسطین کے بارے میں سب سے خطرناک تضاد یہ ہے کہ ایک طرف مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو محض "کاغذی" طور پر تسلیم کرنے کی دوڑ میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف صہیونی حکومت ان ہی اقدامات کے ردعمل کے طور پر مغربی کنارے اور غزہ کے بعض علاقوں کو ضم کرنے کی مہم پر عمل پیرا ہے۔ اس دھوکہ دہی پر مبنی کھیل میں جب دنیا کی رائے عامہ فلسطینی ریاست کی رسمی پہچان پر خوشی کا اظہار کر رہی ہوتی ہے، صہیونی حکومت پوری ڈھٹائی کے ساتھ قبضہ بڑھانے کی طرف عملی پیش قدمی کررہی ہے اور مغربی حکومتوں کے مشکوک ارادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین پر تسلط جمانے کی راہ میں مزید آگے بڑھتی جارہی ہے۔

News ID 1934664

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha