3 اگست، 2025، 7:54 AM

پاکستانی سفیر کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو:

ایران-پاکستان تعلقات خطے میں امن کی ضمانت، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ایران کی مکمل سفارتی حمایت کی

ایران-پاکستان تعلقات خطے میں امن کی ضمانت، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ایران کی مکمل سفارتی حمایت کی

تہران میں پاکستانی سفیر نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو خطے کے امن کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں دفاعی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات بلندیوں کو چھوئیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران پر مسلط کی گئی 12 روزہ جنگ کے دوران تہران کے دفاع کے حق پر زور دیتے ہوئے ایران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایران کے قانونی حقِ دفاع کی مکمل حمایت کی اور تمام بین الاقوامی فورمز پر ایران کی بھرپور تائید کی۔

پاکستانی سفیر نے موجودہ دوطرفہ تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگرچہ چیلنجز موجود ہیں، مگر امکانات بھی بہت وسیع ہیں۔ ان کے انٹرویو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: ایران اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کا سب سے اہم محور کیا ہے؟

مدثر ٹیپو: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ایران اور پاکستان کے مابین نظریاتی، تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی گہرے روابط موجود ہیں۔ ہم دونوں عظیم اقوام ہیں۔ ایران کی تہذیب اور تاریخ ڈھائی ہزار سال پرانی ہے جبکہ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ پاکستان نے ایک پرعزم اور مضبوط ریاست کے طور پر ابھر کر علاقائی اور عالمی نظام میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، سفارتی، تجارتی، عسکری اور سلامتی الغرض ہر سطح پر تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور مضبوطی آئی ہے۔ ایران اور پاکستان کے عوام سال بھر مذہبی زیارات اور عوامی روابط کو فروغ دینے کے لیے کثرت سے ایک دوسرے کے ملکوں کا سفر کرتے ہیں، جو دونوں قوموں کے درمیان عوامی و اقتصادی سطح پر تعلقات کو تقویت دیتے ہیں۔

مہر نیوز: ایران اور پاکستان کے دوطرفہ اقتصادی تعلقات میں موجودہ چیلنجز کیا ہیں؟

مدثر ٹیپو: ہر دوطرفہ تعلق میں مواقع بھی ہوتے ہیں اور چیلنجز بھی، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ اسی طرح دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بھی باقاعدہ رابطے میں ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے سیاسی و سفارتی مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے درمیان کئی تجارتی طریقہ کار موجود ہیں، اور مشترکہ اقتصادی کمیشن ایک اہم فورم ہے جو آئندہ ماہ منعقد ہونے جارہا ہے۔ میرے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت اور عزم نہایت مضبوط ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے تجربے کی روشنی میں میری رائے یہ ہے کہ ہمیں موجودہ اور موافق حالات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایران اور پاکستان کو اقتصادی ترقی، تجارتی آزاد زون کے قیام، اور کاروباری برادریوں کو قریب لانے پر توجہ دینی چاہیے۔

مہر نیوز: ایران پر عائد پابندیوں نے پاک-ایران تجارتی تعلقات، بالخصوص توانائی کے شعبے کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟

مدثر ٹیپو: میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ مواقع پر نظر رکھوں، اور میرے خیال میں مواقع بہت زیادہ ہیں اور تجارتی تعلقات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کی کاروباری برادریوں کے درمیان بھرپور روابط موجود ہیں۔ ہمارے پاس ایک مؤثر طریقہ کار ہے جسے مشترکہ سرحدی تجارت کمیٹی کہا جاتا ہے۔ سرحدی حکام کے درمیان مسلسل رابطہ ہے، اور وہ سرحد پر بنیادی تجارتی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ آئیں ہم ان مواقع پر توجہ مرکوز کریں جو ہمارے پاس موجود ہیں؛ چیلنجز تو ہمیشہ رہیں گے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم آگے کیسے بڑھتے ہیں۔

مہر نیوز: کیا ایران-پاکستان گیس پائپ لائن یا چین-پاکستان اکنامک کاریڈور جیسے مشترکہ منصوبے، ایران، پاکستان اور چین کے درمیان سہ فریقی تعاون کی بنیاد بن سکتے ہیں؟

مدثر ٹیپو: اگر آپ جغرافیہ کو دیکھیں تو چین کی آبادی تقریباً 1.409 ارب ہے، ایران کی 92 ملین اور پاکستان کی 255.21 ملین کے قریب ہے۔ ہمارے پاس علاقائی سطح پر ایسی جغرافیائی قربت اور روابط موجود ہیں جو ہمیں وسط ایشیا، یورپ اور افریقہ تک رسائی کے زبردست مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ایران اور پاکستان ایک منفرد جغرافیائی محلِ وقوع کے حامل ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت داری ہے، جبکہ ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مستقبل میں ہمیں اس جغرافیائی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیسے یہ خطہ صرف ان تین ممالک تک محدود نہیں، بلکہ پورے خطے کو قریب لاسکتا ہے۔ جب تجارت میں سہولت پیدا ہوتی ہے تو اس کے فوائد پورے خطے کو حاصل ہوتے ہیں۔ وسط ایشیا بھی ہمارے قریب ہے، اور اس خطے میں ترقی کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں ترقی اور ایران میں سرمایہ کاری کی گنجائش بہت وسیع ہے۔

چین نے حالیہ عشروں میں جو معاشی ترقی حاصل کی ہے وہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس لیے اگر ہم اجتماعی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہم کئی ممالک کو باہم قریب لاسکتے ہیں، جو پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

مہر نیوز: ایران اور پاکستان علاقائی استحکام، بالخصوص افغانستان کے تناظر میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

مدثر ٹیپو: میرے خیال میں ایران اور پاکستان کے سلامتی کے اداروں کے درمیان اچھا اور مؤثر رابطہ موجود ہے، خاص طور پر منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی نقل مکانی اور سرحد پار جرائم جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اچھی ہماہنگی پائی جاتی ہے۔ ہم ایک مشکل اور پیچیدہ خطے میں رہ رہے ہیں، جہاں گذشتہ کئی دہائیوں سے مختلف نوعیت کے سنگین مسائل دیکھے گئے ہیں۔ لیکن ایران اور پاکستان کی قیادت نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی اپنائی ہے، اور دونوں ملک اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدہ اور مربوط انداز میں کام کررہے ہیں۔

مہر نیوز: پاکستان کی سیکورٹی حکمت عملی میں ایران کو کیا مقام حاصل ہے؟

 مدثر ٹیپو: ایران ہماری سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ تقریبا 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ ہمارے درمیان گہرے ثقافتی روابط ہیں، جو کہ بے حد اہم ہیں۔ بین الاقوامی اداروں جیسے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں ہم باقاعدگی سے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح ترقیاتی اقدامات میں بھی ہمارے درمیان علاقائی سطح پر تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔

میرے خیال میں پاکستان کے نزدیک ایران کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، اور اسی طرح ایران کے لیے بھی پاکستان کی حیثیت خاص ہے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور حالات جنگ کی طرف گئے، تب بھی ایران کی قیادت نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ اسی طرح جب ایران کو حملے کا سامنا کرنا پڑا، تو پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے بین الاقوامی قانون اور اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ایران کے حقِ دفاع کی بھرپور تائید کی۔

مہر نیوز: ایران پر اسرائیل کے حالیہ 12 روزہ حملے کے بارے میں پاکستان کا مؤقف کیا تھا؟

مدثر ٹیپو: ہم نے اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ بہت سے ممالک نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی، لیکن پاکستان نے اس جنگ کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیا بلکہ ایران کے حق دفاع کی واضح حمایت کی۔ ہم نے اقوام متحدہ کے منشور کے تحت ایران کے دفاع کے حق کو مکمل طور پر تسلیم کیا، اور ہر بین الاقوامی فورم پر ایران کی سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کی۔ ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم جناب عراقچی سے مسلسل رابطے میں رہے اور صدر مسعود پزشکیان سے بھی قریبی مشاورت جاری رہی۔ قیادت کی سطح پر بھرپور رابطہ اور سفارتی سطح پر ہم آہنگی موجود رہی، اور پاکستان نے ہر فورم پر ایران کی حمایت کو اپنا فرض سمجھا۔

مہر نیوز: آپ مستقبل میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

 مدثر ٹیپو: مجھے مستقبل کے حوالے سے بہت امید ہے۔ میں نے خود گذشتہ دو برسوں میں مشاہدہ کیا ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ایران کے دو اہم دورے کیے، جہاں ان کی رہبر معظم اور صدر مملکت سمیت اعلی ایرانی قیادت سے انتہائی مثبت اور تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔

اسی طرح جناب عباس عراقچی بھی متعدد بار پاکستان تشریف لے جاچکے ہیں۔ دونوں ممالک کی عسکری قیادت کے درمیان بھی مسلسل رابطہ موجود ہے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ایران کا دورہ کیا، جہاں ان کی ایرانی عسکری اور سیاسی قیادت سے نہایت مثبت اور بامعنی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد خطے میں امن اور استحکام کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔

میرے نزدیک ایران اور پاکستان کے مابین یہ مسلسل رابطہ اور تعاون صرف ان دو ممالک کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ یہ اشتراک عمل خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران-پاکستان شراکت داری، خطے کو استحکام، ترقی اور امن کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

News ID 1934653

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha