مہر خبررساں ایجنسی بین الاقوامی ڈیسک: ڈاکٹر صابر ابو مریم, سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان: طول تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے سانحات پر ایک طبقہ مذمت کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری سے فراغت حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی اس طبقہ نے یہ احساس پیدا کرلیا ہے کہ شاید کسی بھی انسانی المیہ یا کسی حادثہ پر مذمت کر دی جائے تو کافی ہے۔ یہاں تک کہ آج کل مادڑن دنیا میں جہاں نیشن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا گیا ہے، ان ریاستوں کے سربراہان بھی بڑے بڑے قومی اور بین الاقوامی سانحات پر صرف مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ایک نظریہ ہے کہ ان سربراہان مملکت کو عام آدمی سے الگ ہونا چاہیئے، یعنی ان کو مذمت کرنے کی جگہ عملی اقدامات انجام دینے چاہئیں، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دنیا ایسی ہی دنیا بن چکی ہے، جہاں ریاستوں کے سربراہان مملکت ہوں یا افواج کے سربراہ اور سپہ سالار ہوں، سب کے سب سانحات اور انسانی المیوں پر مذمت سے کام چلاتے ہیں۔
آج کے اس مقالہ میں یہی سوال ہے کہ کیا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس معاملہ پر بھی مذمت کافی ہے۔؟ کیا دنیا کے حکمرانوں کی ذمہ داری یہاں تک ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک جملہ مذمت کے لئے ادا کر دیں اور پھر یہ مذمت ان کو اپنی اصل ذمہ داری سے آزاد کر دے۔ پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان سربراہان مملکت کی جانب سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر مذمت سے مسئلہ حل ہوگیا ہے یا ہو جائے گا۔؟ سات اکتوبر کے بعد سے غاصب صیہونی گینگ اسرائیل غزہ میں امریکہ اور مغربی حکومتوں کی مدد سے مسلسل معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس قتل عام کو ایک منظم نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں بالخصوص مغربی دنیا میں عوام غاصب صیہونیوں کے اس ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں اور ایک مہذب انداز میں احتجاج کئے جا رہے ہیں، بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں جاری ہیں، مسلمان ممالک کے عوام بھی احتجاج اور ریلیاں نکال رہے ہیں، ہر عنوان سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے اقدام سے باز رکھا جائے اور غزہ میں جارحیت کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل یہ با جانتی ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کی بیشتر حکومتیں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ ہیں اور انہوں نے نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کو جرم ہی قرار نہیں دیا اور نہ ہی نیتن یاہو جیسے جنگی مجرم کی مذمت کی ہے تو بس غاصب اسرائیلی گینگ یہ سمجھتی ہے کہ اس کا حق ہے، وہ جیسے چاہے، جب چاہے فلسطینیوں کو قتل کرتی رہے، ان کو بھوک اور پیاس کے ذریعے بھی قتل کرے اور گولہ بارود کے ساتھ بھی۔ یہ سب کچھ آج پوری دنیا اپنی اسکرین پر براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف احتجاج اور ریلیوں اور دیگر طریقوں سے غاصب صیہونی حکومت پر دبائو بنایا جا سکتا ہے۔؟ یا اب تک جو بڑے بڑے احتجاج دنیامیں ہو رہے ہیں، وہ کیوں غاصب صیہونی گینگ اسرائیل پر دبائو قائم نہیں کرسکے۔
یقیناً اس کا جواب یہی ہے کہ جہاں مغربی حکومتیں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں، وہاں مسلم دنیا کے عرب و غیر عرب حکمران بھی اسرائیل کو کسی نہ کسی طرح مدد فراہم کر رہے ہیں اور غاصب اسرائیل اس بات سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جنگی جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب جب یہ بات واضح ہوچکی ہے تو ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔؟ یقینی طور پر غزہ میں جارحیت کے خاتمہ کے لئے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے اور مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ اس سوال کے تناظر میں کہ آیا مذمت کافی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کچھ مزید عملی اقدامات ہیں، جو ہمیں انجام دینے کے لئے اپنی اپنی حکومتوں کو دبائو دینا پڑے گا کہ وہ ان اقدامات کی طرف آئیں، تاکہ غزہ میں باقاعدہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی جارحیت اور نسل کشی کے اقدامات کو فی الفور روکا جائے۔
دراصل ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے ریلیوں اور مظاہروں کے دبائو سے خود کو باہر کر لیا ہے، اب چاہے کتنا ہی احتجاج ہو، غاصب صیہونی گینگ اسرائیل مسلسل قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کچھ عملی نظریات جو غزہ کی صورتحال پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر حکومتوں سے مطالبات کی حد کو بڑھانا چاہیئے اور مزید سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔ یہاں کچھ مثالیں ہیں، جیسا کہ ایک مہم چلائی جانی چاہیئے، جس میں شمالی افریقی ممالک سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ شمالی افریقی ممالک غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لئے بحیرہ روم کے راستے کو بند کر دیں، جیسا کہ یمن نے بحیرہ احمر میں کیا ہے۔ ایک اور مہم بھی چلائی جا سکتی ہے کہ لیبیا، الجزائر، مصر، تیونس اور مراکش ایک ہی دن اردن، مصر اور شام میں مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کی طرف مارچ کریں اور غاصب صیہونی گینگ اسرائیل پر دباو بڑھائیں۔
اردن اور مصر میں بڑے پیمانے پر مارچ کئے جانے چاہئیں، تاکہ یہاں پر موجود امریکی ایجنٹ اور خود امریکہ اپنے آپ کو ان ممالک میں غیر محفوظ محسوس کرے اور ان ممالک سے امریکی بالا دستی کا خاتمہ ہو۔ امریکہ جو کہ غزہ میں جاری نسل کشی کا برابر کا شریک جرم ہے، عوامی سطح پر مطالبات اٹھائے جانے چاہئیں کہ حکومتیں امریکہ کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جائیں، تاکہ امریکی حکومت کی فلسطین اور انسان دشمن پالیسیوں کو آشکار کیا جا سکے۔ مصر میں بین الاقوامی شخصیات اور علماء کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علماء اور بین الاقوامی شخصیات سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ رفح کراسنگ پر دھرنا دیں۔
غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلق رکھنے والے مسلمان عرب و غیر عرب ممالک کی حکومتوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ شدت کے ساتھ کیا جائے۔ عوام کو چاہیئے کہ امریکہ اور غاصب صیہونیوں سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ کی ایک وسیع مہم جاری رکھیں۔ اسی طرح مطالبات کی حد کو بڑھانے کے لیے اسلامی ممالک سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کیا جانا چاہیئے۔ یہ وہ چند عملی اقدامات ہیں کہ جو انجام دیئے جانے چاہیئے اور یہ سب اقدامات عمل کے محتاج ہیں، نہ مذمت کے بیانات کے۔ غزہ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مذمت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔
آپ کا تبصرہ