مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: دنیا میں جہاں ایٹمی سفارتکاری کی بنیاد اعتماد پر استوار ہے، وہاں بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ حساس اور نازک بن چکا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو ماضی میں غیرجانبداری اور فنی شفافیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج دنیا بھر میں شدید عدم اعتماد کا شکار ہو چکا ہے۔ بالخصوص ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حالیہ برسوں میں ایجنسی پر سیاسی جانبداری، حساس معلومات کے افشاء اور مختلف ملکوں سے دہرا رویہ برتنے جیسے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ایسے میں کئی عالمی تجزیہ کاروں اور ریاستوں کا کہنا ہے کہ ایجنسی اب ایک فنی ادارہ نہیں رہا بلکہ مغربی طاقتوں کے غیررسمی مفادات کا ایک ہتھیار بن چکا ہے۔
ادارے کی رپورٹوں کا متغیر لہجہ، اہم سیاسی یا دفاعی حالات کے ساتھ افشاء کردہ معلومات اور بعض ممالک کی خلاف ورزیوں پر چشم پوشی یہ سب اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ایجنسی اب غیرجانبدار سائنسی اصولوں سے دور ہٹ چکا ہے۔
ایسے میں اصل سوال یہ ہے کہ وہ ادارہ جو کبھی عالمی جوہری تنازعات کا قابلِ اعتماد ثالث سمجھا جاتا تھا، آج اتنا غیرمعتبر کیوں بن چکا ہے؟
آغاز میں بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی شناخت ایک فنی، غیرجانبدار اور نگران ادارے کے طور پر کی جاتی تھی، جس کا مقصد سائنسی بنیادوں پر جوہری پروگراموں کی نگرانی اور ان کے پرامن مقاصد کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں بالخصوص ایران کے معاملے میں، یہ ادارہ اپنی اصل ذمہ داری سے ہٹ کر ایک سیاسی کھلاڑی میں بدل چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ایجنسی کی جانب سے تحقیق کے بغیر بے چون و چرا مغربی انٹیلی جنس رپورٹس پر انحصار اس انحراف کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ جب کہ اسرائیل جیسے ممالک کی جوہری خلاف ورزیوں پر یہ ادارہ مسلسل خاموش رہا، حالانکہ وہ این پی ٹی کا رکن بھی نہیں۔ اسی طرح، رافائل گروسی کی سربراہی میں ایجنسی کی رپورٹوں کے لہجے میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ جہاں پہلے محض فنی نکات جیسے افزودگی کی سطح، سینٹری فیوجز کی تعداد یا معائنے کا ذکر ہوتا تھا، اب رپورٹیں مبہم سیاسی اصطلاحات جیسے شدید تشویش، غیرواضح رویہ اور ممکنہ خفیہ سرگرمیاں سے بھری ہوتی ہیں جو کہ سائنسی شواہد سے زیادہ ذہن سازی اور اندازے پر مبنی ہیں۔
ایک اور نکتہ جس پر مبصرین نے توجہ دلائی ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ایجنسی کی حساس رپورٹ، مغربی ممالک کے سفارتی دباؤ یا ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے صرف چند دن پہلے شائع ہوئی، جس سے تاثر پیدا ہوا کہ یہ رپورٹیں نگرانی نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کا آلہ بن چکی ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایجنسی کا یہ طرزِعمل نہ صرف اس کی فنی ساکھ کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ترقی پذیر اور غیرجانبدار ملکوں میں اس کے بارے میں اعتماد کو شدید نقصان پہنچارہا ہے۔ جو ادارہ عالمی سطح پر حکومتوں کے درمیان ایک ثالث غیرجانبدار ہونا چاہیے تھا، آج وہ کئی ملکوں کی نظر میں طاقتوروں کے کھیل کا حصہ بن چکا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے نظام کو ہو رہا ہے۔
ایران کا جوہری پروگرام، آئی اے ای اے کے لیے غیرجانبداری اور پیشہ ورانہ دیانت کا ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ ایران، جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا ابتدائی دستخط کنندہ ہے، برسوں سے ایجنسی کی سخت نگرانی میں ہے، مگر اس کے باوجود رپورٹوں کی غیرمعمولی تعداد، غیرمصدقہ الزامات کا تسلسل اور رپورٹوں کا سیاسی یا دفاعی حالات سے مشکوک انداز میں ہماہنگی کی وجہ سے ایران نے بارہا اس ادارے پر جانبداری اور دہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا ہے۔
2018 میں صہیونی حکومت کی جانب سے ایران کے مبینہ "ایٹمی آرکائیو" کی افشاگری، اس جانبداری کی ایک نمایاں مثال بنی۔ یہ معلومات، بغیر کسی بین الاقوامی طریقہ کار یا آزاد تصدیق کے ایجنسی کو دی گئیں اور اسی کو بنیاد بنا کر بعد کی رپورٹیں تیار کی گئیں۔ ادارے کو چاہیے تھا کہ وہ ان معلومات کی سائنسی بنیاد پر مکمل جانچ پڑتال کرتا، مگر رپورٹوں کی جلدبازی میں اشاعت اور سیاسی ماحول سے ہم آہنگی نے یہ تاثر دیا کہ ادارہ مغربی دباؤ کے زیر اثر فیصلے کر رہا ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل جو نہ صرف NPT کا رکن نہیں بلکہ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے رکھنے کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، اسے آج تک نہ کوئی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا، نہ اس کی تنصیبات کا کسی نے معائنہ کیا۔ اسی غیر متوازن رویے کے باعث ایران اور غیر جانبدار تحریک کے دیگر ارکان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایجنسی اپنے بنیادی اصولوں یعنی انصاف، توازن اور غیرجانبداری سے انحراف کر چکا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے ساتھ ایجنسی کے سلوک میں پایا جانے والا یہ واضح فرق، اس بین الاقوامی ادارے کے لیے غیرجانبداری کا سب سے بڑا امتحان تھا اور بیشتر مبصرین کے نزدیک، ایجنسی اس امتحان میں ناکام ہو چکی ہے۔
ایک ایسے عالمی نظام میں جہاں امریکی یک قطبی حکمرانی کا دور ختم ہو چکا ہے، دنیا کے ممالک کے نئے بلاکس اور خودمختار کھلاڑی تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں کثیرالجہتی اداروں جیسے عالمی جوہری ایجنسی پر اعتماد ہی ان کی بقا اور اثر پذیری کی کلید ہے۔ لیکن گزشتہ برسوں میں یہ ادارہ اپنی اس ساکھ کا بڑا حصہ کھو چکا ہے۔
روس، چین، ایران اور غیر جانبدار تحریک کے کئی رکن ممالک نے بارہا سرکاری اجلاسوں میں ایجنسی کی واضح مغربی جانب داری پر سخت اعتراض کیا ہے۔ جب ایجنسی کی رپورٹس پابندیوں یا فوجی کارروائیوں کے ساتھ یک وقت سامنے آتی ہیں تو ادارے کی نگرانی کے مسئلے پر مزید سوالات اٹھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے خطرہ یہ ہے کہ ممالک تعاون ترک کر دیں، شفافیت سے گریز کریں یا یہاں تک کہ این پی ٹی کے دائرے سے باہر نکل جائیں۔ ایسے عمل سے عالمی سطح پر اسلحہ کے مقابلے کا دور پھر سے شروع ہوسکتا ہے اور عالمی استحکام شدید متاثر ہو گا۔ غیر جانبداری کھونے والا کوئی بھی ادارہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
لہذا اگر ایجنسی اپنی فنی ساکھ اور عالمی اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ادارہ ایک شناختی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ ایسا ادارہ جسے اب کوئی غیرجانبدار ثالث نہیں سمجھتا، اپنی اصل حیثیت کھو چکا ہے اور ایک پرتشدد دنیا میں اس کا کردار کمزور ہو جائے گا۔ یہ صورتحال عالمی عدم استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز تصور کی جا رہی ہے۔
آپ کا تبصرہ