9 اکتوبر، 2024، 7:55 PM

ایرانی عوام کا جوہری پروگرام میں تیزی لانے کا مطالبہ

ایرانی عوام کا جوہری پروگرام میں تیزی لانے کا مطالبہ

اسرائیلی رجیم کے ہاتھوں غزہ کی تباہی اور دیگر علاقوں پر صیہونی جرائم کو ایک سال گزرنےکے بعد، ایسا لگتا ہے کہ ایرانی شہریوں کی اگرچہ نسبتاً کم تعداد نے ملک کے جوہری پروگرام کے آغاز سے ہی نیوکلئیر ہتھیاروں کی تیاری کی حمایت کی ہے۔

مہر نیوز نے تہران ٹائمز کی جائزہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حال ہی میں، ایران کے وسطی علاقے سمنان میں ایک زلزلہ آیا، جس سے سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ اس کا ایرانی حکومت کے جوہری تجربے سے تعلق ہونے کا امکان ہے، تاہم متعلقہ ماہرین اور ایرانی حکام نے فوری طور پر ان دعوؤں کو مسترد کر دیا۔

اس سلسلے میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے بھی کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پتہ چل جائے گا کہ تہران نے اپنے جوہری اصول کو تبدیل کر دیا ہے اس سے پہلے کہ ملک جوہری ہتھیار تیار کر لے۔ اس کے باوجود اس افواہ نے حالیہ دنوں میں ایرانیوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔

تہران کے رہائشی 25 سالہ نرس علی نے کہا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں کہ جب میں نے سنا کہ یہ جوہری تجربہ نہیں تھا تو میں ایک طرح سے مایوس ہوا۔

ہم نے کئی دہائیوں کی غیر منصفانہ پابندیوں کو برداشت کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے ابھی تک جوہری ہتھیار کیوں نہیں بنائے ہیں، کیوں کہ ہم پہلے ہی اس کی قیمت ادا کر چکے ہیں۔

علی ایرانیوں کی نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں اپنی ناپختگی اور بڑھتے ہوئے تناؤ کے خطرات کے بارے میں آگاہی کی کمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ 1988 میں ایران-عراق جنگ کے بعد پیدا ہوئے ہیں، جس میں اہم جانی نقصان اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ نسل ان لوگوں سے مختلف ہے جنہوں نے خود ہی جنگ کا تجربہ کیا اسی لئے نئی نسل مغرب اور اس کے پراکسیوں کے ساتھ ممکنہ تصادم سے بچنا پسند کرتی ہے۔

 تاہم، آج ایرانی معاشرے کے بائیں بازو کے حامی اس خیال کی حمایت کرنے لگے ہیں کہ تہران کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہیے۔

ایک 61 سالہ ریٹائرڈ استاد نے کہا کہ میں بہت خوش تھا جب ہم نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جامع جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ میں نے سوچا کہ ہمارے جوہری پروگرام پر تنازعہ بالآخر ختم ہو گیا ہے اور آخر کار مغرب ہمیں گلے لگانے والا ہے، لیکن واقعی کچھ نہیں بدلا بلکہ حالات بدتر نظر آنے لگے۔

 مغرب نے معاہدہ توڑ کر ہم پر اپنی اقتصادی گرفت مضبوط کر لی اور اسرائیل اب ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، اگرچہ اس دوران ہم نے بار بار ثابت کیا ہے کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے حصول کے درپے نہیں ہیں۔

جوہری معاہدہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہوا تھا جس میں ایرانی جوہری معاہدے کو محدود کرنے کے بدلے مغربی ممالک پابندیاں ختم کریں گے۔ واشنگٹن نے 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ اس کے یورپی اتحادیوں، یعنی جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے رسمی دستخط کنندگان کے طور پر باقی رہنے کے باوجود اپنے وعدوں سے مکرنا شروع کر دیا۔

جوہری معاہدے کے بعد ایرانی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں شکوک و شبہات یقینی طور پر ختم ہوگئے لیکن اسرائیلی جارحیت میں اضافے کے ساتھ ایرانیوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا مطالبہ بڑھتا گیا۔

غزہ کی پٹی پر جارحیت اور لبنان، شام اور یمن پر بمباری کے بعد ایرانیوں کو اس بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے کہ آیا ان کے ملک میں اتنی قوت ہے کہ وہ اسرائیل کو ان کارروائیوں کو دہرانے سے روک سکے کیونکہ صہیونی حکومت پہلے بھی ایرانی سرزمین پر ایک ممتاز فلسطینی رہنما کو قتل کرنے کی حماقت کرچکی ہے۔

 مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی طرح ایرانیوں کے خلاف اپنے اقدامات کو دہرانے کی کوشش کرے گا، خاص طور پر چونکہ اس کے بہت سے سیاست دان پہلے ہی ایسا کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ لیکن پچھلے سال کے واقعات کے تناظر میں، ڈیٹرنس کا تصور علمی گفتگو کے دائرے سے آگے نکل کر عام شہریوں کے لیے بھی غور و فکر کا موضوع بن گیا ہے۔"

اسرائیل کی جوہری طاقت اور تہران کے پاس اس کی کمی کے باوجود ایران نے گزشتہ ایک سال کے اندر دو بار اسرائیل کے خلاف ڈیٹرنس قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک بار اپریل میں جب اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا، اور دوسری مرتبہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے ردعمل میں اسرائیل کے خلاف دو کارروائیاں کی گئیں، جن میں مقبوضہ علاقوں پر سینکڑوں ڈرون اور میزائل داغے گئے اور دونوں آپریشنز کامیاب رہے ہیں جب کہ اسرائیل نے بدلہ لینے کے بجائے کشیدگی کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم صہیونی حکومت غنڈہ گردی کے پیش نظر کوئی نہیں جانتا کہ آیا ایران کو مستقبل میں ایسے ہی فیصلے کرنے پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کیونکہ جوہری ہتھیار اسرائیل کے پاس ہیں جبکہ ایران کے پاس نہیں۔

کینیڈا میں تحقیقی فرم کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً 70 فیصد ایرانیوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی حمایت کی۔ حالیہ واقعات کے بعد اس فیصد میں اضافہ ہوا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں اضافہ کی خواہش ملک کی زیادہ بااثر اور اشرافیہ کے حلقوں میں بھی گونج رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی کے پوتے حسن خمینی نے حالیہ انٹرویو میں ایران کو اپنی ڈیٹرنس صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے ذہن میں کوئی خاص قسم کا منصوبہ ہے تو انہوں نے جواب دیا "میں ابھی یہی کہوں گا"۔

News ID 1927295

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha