مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، ارمان نصراللہی: عراقی کردستان ریجن کے سربراہ اور اس خطے کے مختلف سیاسی گروہوں اور دھاروں کی سرکردہ اور معتبر شخصیات میں سے ایک نیچروان بارزانی کے تین روزہ دورہ ایران سے تہران اور اربیل کے درمیان رابطے اور تعامل کے سیاسی منظرنامے میں ایک نیا افق روشن ہوا ہے۔
گزشتہ ایک یا دو سالوں کے دوران تہران اور اربیل کے تعلقات میں کسی حد تک سرد مہری آئی تھی اور اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات نے فریقین کے تعلقات میں تناو پیدا کر دیا تھا۔ تاہم اس دورے سے فریقین کے درمیان تعلقات ایک نئی سمت میں داخل ہوں گے جس سے خطے میں سیکورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے بہت اہم نتائج اور کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
نیچروان بارزانی نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف سیاسی ذمہ داریوں کے دوران ایران سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہے۔
بارزانی کا یہ دورہ موجودہ علاقائی صورت حال اور اس ریجن اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان اختلافات کے تناظر میں خطے سمیت عراق کے لیے مثبت نتائج کا حامل ہوگا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی مرکزی حکومت بھی اس دورے کی پیشرفت کو سنجیدگی سے لے گی اور کردستان کے سربراہ کی ملاقاتوں پر خصوصی توجہ دے گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے کردوں کے درمیان تعلقات کے تاریخی ریکارڈ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران ہمیشہ سے عراق کے کردوں کا بہترین دوست رہا ہے اور مختلف مواقع میں ان کے لیے بہترین ساتھی اور پناہ گاہ رہا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں کے واقعات میں ایران نے عراق کے کردوں کو کسی قسم کی مدد سے دریغ نہیں کیا۔
عراق کے کردوں کے لیے ایران کی حمایت اس قدر اہم اور واضح ہے کہ نیچروان بارزانی نے بھی ایرانی صدر سے ملاقات میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جدید عراق کی بنیاد اور موجودہ خوشگوار تعلقات ایران کے تعاون کا نتیجہ ہیں۔ لہذا ایران صرف ایک ہمسایہ نہیں ہے۔ اگر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نہ ہوتے تو یہ واضح نہیں تھا کہ آج کردستان کا کیا حشر ہوتا۔ لہذا اس تعاون اور تعاملات کا احترام ہمارے لئے ایک طرح کی ریڈ لائن ہے جسے ہم کبھی عبور نہیں کریں گے۔
برزانی کا تہران-اربیل اور تہران-بغداد تعلقات کی اہمیت پر تاکید علاقائی منظرنامے میں ایران کی فیصللہ کن پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے، اگرچہ مغربی ممالک اس میں چیلنجز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود ایران کی اس پوزیشن اور کردار میں نہ صرف کمی نہیں آئی ہے بلکہ حالیہ صورت حال کی وجہ سے اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور آج ایران کی شرکت اور موجودگی کے بغیر عراق میں امن قائم کرنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
تاریخی مسائل کے علاوہ، اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران، عراقی کردستان کے ساتھ سب سے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور تمرچن سے لے کر بشماق اور پرویزخان تک متعدد رسمی سرحدوں کا وجود اس اہمیت اور اشیا کے تبادلے کے اعلیٰ حجم کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اسی طرح تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کے شعبے میں ایران کا رابطہ اور تعامل فریقین کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کے شعبوں میں تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سائنسی اور صحت کے مسائل پر بھی توجہ دی گئی ہے اور کردستان اور کرمانشاہ صوبوں میں بنائے گئے انفراسٹرکچر کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کو ان کی صحت اور اعلیٰ تعلیم کی ضروریات کا ایک حصہ ایران کے سرحدی صوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس دورے کا ایک اہم مقصد مستقبل میں ان رابطوں کو مضبوط کرنا ہے۔
کردستان ریجن کے داخلی معاملات کی رو سے بارزانی کا دورہ تہران اہم پیغامات کا حامل ہے، کیونکہ عراق کی مرکزی حکومت کے ساتھ کردستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سیاسی گروہوں کے درمیان اختلافات کے حل کے لئے یہ دورہ، ایران سے موئثر حل موثر کی خواہش کے طور پر انجام پایا ہے۔ اس مسئلے کو پچھلے دو دنوں سے ریجن کے مقامی کرد ذرائع ابلاغ نے بھرپور طریقے سے اجاگر کرتے ہوئے اس کی اہمیت کی نشاندہی کی ہے۔
اس کے علاوہ ایران اور عراق کے درمیان سیکورٹی معاہدے کا بھی ذکر کیا جانا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ کردستان کے سربراہ کی ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات میں اس مسئلے پر خصوصی غور کیا گیا اور ایرانی صدر اور دیگر اعلی حکام نے اس پر عمل درآمد کے لئے عراقی کردستان کی فعال شرکت کا مطالبہ بھی کیا۔
بلاشبہ، بارزانی اس دورے سے خالی ہاتھ نہیں واپس نہیں آئے بلکہ بہت کچھ حاصل کرکے لوٹے ہیں۔ اور تہران اور اربیل آنے والے دنوں میں تعاون کے نئے موسم کا تجربہ کریں گے، اور جیسا کہ صدر رئیسی نے بارزانی کے ساتھ ملاقات میں کہا: ایران اور عراقی کردستان کے درمیان اقتصادی تعاون اور تعلقات کی توسیع میں رکاوٹ حائل نہیں ہے اور ہم فریقین کے درمیان طویل سرحدوں کو تعلقات کی سطح کو بہتر بنانے کا ایک قیمتی موقع سمجھتے ہیں، تاہم سلامتی اور امن و امان کسی بھی قسم کے دوطرفہ تعاون کی توسیع کے لئے لازمی اور بنیادی شرط ہے۔
ایرانی صدر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمیں دشمنوں اور بدخواہوں کو فریقین کے درمیان دوستانہ اور گہرے تعلقات میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے، مزید کہا: حکام کا نقطہ نظر غیر علاقائی قوتوں کی بدنیتی سے بالاتر ہو کر ایران اور عراق کے درمیان بالعموم اور کردستان کے ساتھ خصوصی طور پر تعلقات کی ترقی کے لیے حل وضع کرنا اور اس پر عمل درآمد کے لئے جد و جہد پر مبنی ہونا چاہئے۔
آپ کا تبصرہ