مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ محرم الحرام وہ مقدس مہینہ ہے جس میں دین اسلام کی بقا اور دوام کے لئے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) نے اپنا پورا کنبہ لٹا دیا، اور اپنے اعزا و اقربا اور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ ۔واقعہ کربلا محض ایک واقعہ یا اسلامی تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک واضح مثال ہے۔سانحہ کربلا نے دنیا میں بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور حق و باطل کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی ایک گروہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کا پیروکار اور شیعہ ہے جو حق اور سچ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروہ یزید ، معاویہ ، ابوسفیان اور ہندہ جگر خوارہ کا طرفدار ہے جو آج بھی ظلم اور ظالم کا طرفدار ہے۔
واقعہ کربلا کی حقانیت آج بھی ہر باضمیر انسان کےچہرے سےچھلکتی ہے،اگرچہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو ۔اگر کسی بھی شخص کا ضمیر زندہ ہے اور اسکے دل میں انسانیت کے لئے درد پنہاں ہے تو وہ حسینی (ع) ہے ۔
کربلا کے معرکے کے بارے میں سوچیں تو روح تھر تھرکانپ جاتی ہے اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا خونچکاں واقعہ ہے جس میں ایک جانب اطاعت خداوندی ،ایثار ، قربانی اور عبادات کے پہلو ملتے ہیں تو دوسری جانب ظالم حکمران کا اپنی عددی طاقت کی بنا پر غرور اور کبر نظر آتا ہے ۔ کربلا کی سرزمین تو وہ ہےجس کو امام حسین (ع) کے مقدس خون کی وجہ سے بے مثال مقام مل گیا ۔ آج اسی سرزمین ننیوا کو کربلائے معلیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے مظلوم کا مقتل ہے جو نبی کریم کے خاندان کا چشم و چراغ اور آنحضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جو کل بھی دینِ محمد(ص) کا محافظ تھا اور آج بھی محافظ ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ جب نواسہ رسول (ص) سرزمین کربلا پر اترے اور آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے تو آپ سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ یہاں سے ایک مشت خاک اٹھا کر مجھے دے دو ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ امام عالی مقامؓ نے وہ مٹی سونگھی اور پھر اپنے کرتے کی جیب میں سے ایک مٹھی مٹی نکالی اور فرمایا کہ یہ وہی مٹی ہے کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے اللہ تعالی نے میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیل و آلہ وسلم کو بھیجی تھی اور کہا تھا کہ یہی حسین (ع) کی تربت کی مٹی ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام وہ عظیم اور ذی وقار ہستی ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جس نے اس سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نےا سے اذیت دی اس نے گویا مجھے اذیت دی ‘ لیکن حیف ہے ایسی جاہل اُمت پرکہ جنہوں نے کلمہ پڑھ کر امام حسین (ع) کی گردن پر کند خنجر چلا دیا ۔ اس گردن کو تہ تیغ کر دیا جس پر ہمارے پیارے نبی (ص) بوسے دیا کرتے تھے ۔
دیکھا جائے تو کربلا کے شہیدوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں اطاعتِ خداوندی اور حریت کا درس دیا ۔انھوں نے بتایا کہ صرف نمازیں پڑھنا یا اذانیں دینا ہی کافی نہیں،قرآن کے ساتھ ساتھ ناطقِ قرآن کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
کربلا کا معرکہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ آج بھی ایک جانب مظلوم اور محکوم اقوام ہیں تو دوسری جانب ظالم اور جابرحکمراں ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ فلسطین، یمن ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری ہے جہاں ایک طرف اس دور کے یزید امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ایک طرف فلسطین ، یمن اور لبنان کی مظلوم اقوام ہیں۔
آپ کا تبصرہ