مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آج صبح بعض خواتین ، شعراء اور ذاکرین اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور ایٹمی مذاکرات نیز یمن کے حالات کے بارے میں بہت ہی اہم مطالب کو بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کا آغاز اس مقدمہ سے کیا کہ " بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ حالیہ ایٹمی مذاکرات کے بارے میں رہبری نے کیوں کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا ہے؟ "
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: رہبری کی طرف سے مؤقف بیان نہ کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مؤقف بیان کرنے کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ ملک کے حکام اور ایٹمی مذاکراتی ٹیم کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی کام انجام پذیر نہیں ہوا ہے اور فریقین کے درمیان ابھی تک کوئی ایسا معاملہ طے نہیں پایا ہے جو پابند بنانے والا ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسی صورتحال میں مؤقف بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ حالیہ ایٹمی مذاکرات کے حامی ہیں یا مخالف ، تو میں کہوں گا کہ نہ میں حامی ہوں اور نہ ہی مخالف، کیونکہ ابھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تمام مشکلات اس کے بعد ہیں کیونکہ اس کی تفصیلات کے بارے میں بحث و گفتگو ہوگی کیونکہ فریق مقابل، عہد شکن، ،لجوج، ضدی اور پشت میں خنجر گھونپنے والا ہے اور ممکن ہے وہ مذاکرات کے تفصیلی مرحلے میں ملک و قوم اور مذاکراتی ٹیم کو اپنے محاصرے میں کرلے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اب تک جو کام انجام پذیر ہوا ہے نہ وہ اصل معاہدہ ہے، نہ معاہدے تک پہنچنے والا قدم ہے اور نہ ہی مذاکرات کا متن قابل ضمانت ہے حتی اس معاملہ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ اعلامیہ معاہدے تک پنہچےگا لہذا اس مرحلے پر مبارکباد پیش کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوران چند نکات کی یاددہانی کرتے ہوئے فرمایا: میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں کبھی بھی پرامید نہیں تھا اور یہ مسئلہ بھی کسی وہم و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ ان تجربات کی روشنی میں ہے جو اس سلسلے میں موجود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ ایام میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں اگر مستقبل میں یادداشتیں، واقعات اور تفصیلات شائع ہوئیں تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے اس تجربہ کا اصل سرچشمہ کہاں سے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں پرامید نہ ہونے کے باوجود میں نے مذاکرات کی حمایت کی اور اگر کوئی یہ کہے کہ رہبری معاہدے تک پہنچنے کے مخالف ہیں تو ایسے شخص نے حقیقت کے خلاف بات کہی ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک و قوم کے مفادات کی حفاظت کرنے والے معاہدے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے فرمایا: البتہ میں نے یہ کہا ہے کہ برے معاہدے سے معاہدہ نہ کرنا بہتر ہے کیونکہ ایسے معاہدہ کو قبول نہ کرنا بہتر ہےجو ایرانی قوم کے حقوق ، مفادات اور ان کی عزت و شرف کو پامال کرے اور ایرانی قوم کی ذلت اور بے حرمتی کا باعث ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک ابہام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کی تفصیلات رہبری کے زیر نظر ہیں حالانکہ یہ بات دقیق نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں مذاکرات کی نسبت بے تفاوت نہیں ہوں لیکن ابھی تک مذاکرات کی تفصیلات میں مداخلت نہیں کی ہے اور اس کے بعد بھی مداخلت نہیں کروں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں نے بلند مدت مسائل، اصلی خطوط و حدود اور ریڈ لائنوں کے متعلق صدر جمہوریہ اور بعض موارد میں وزیر خارجہ کو آگاہ کیا ہے لیکن تفصیلات ان کے پاس ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں مذاکراتی ٹیم پر اعتماد رکھتا ہوں، اوراس کے بارے میں ابھی تک شک و تردید سے دوچار نہیں ہوا ہوں اور انشاء اللہ کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا لیکن مذاکرات کے بارے میں مجھے سخت تشویش ضرور ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کے مکر و فریب، عہد شکنی ، جھوٹ ، صحیح راہ کے برخلاف حرکت کو اپنی تشویش کا اصلی سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: حالیہ مذاکرات میں فریق ثانی کی غلط اور متضاد رفتار کا ایک نمونہ فوری طور پر سامنے آگیا کہ مذاکرات ختم ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد مذاکرات کی تشریح کے سلسلے میں وہائٹ ہاؤس نے چند صفحوں پر مشتمل اعلامیہ شائع کردیا جس میں اکثر موارد حقیقت کے بالکل خلاف تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے اعلامیہ کے متن کی تحریر دو گھنٹوں میں ممکن نہیں ہے لہذا وہ ایک طرف مذاکرات میں مشغول تھے تو دوسری طرف وہ مذاکرات کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق غلط اور غیر حقیقی اعلامیہ تیار کررہے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کے جھوٹ بولنے، عہد شکن ہونے اور دھوکہ باز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:دوسرا نمونہ یہ ہے کہ وہ ہر دفعہ مذاکرات کے بعد آشکارا بیان دیتے ہیں اور پھر خصوصی طور پر کہتے ہیں کہ ہمارا بیان صرف اندرونی معاملات اور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے ہے جبکہ ان مسائل کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: معروف ضرب المثل ہے کہ " کافر سب کو اپنا ہم مذہب اور ہم عقیدہ سمجھتا ہے" کہتے ہیں کہ ایران کے رہبر بھی اگر مذاکرات کی مخالفت کریں تو ان کی حقیقی بات نہیں ہے بلکہ اندرونی سطح پر آبرو حفظ کرنے کے لئے ہے حالانکہ وہ ایران کے اندر کے حقائق کو نہیں سمجھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے ساتھ رہبری کی باتیں باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہیں جس طرح عوام کو مجھ حقیر پر اعتماد ہے اسی طرح مجھے بھی عوام پر مکمل اعتماد ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ ایرانی عوام کو اللہ تعالی کی ہمیشہ پشتپناہی حاصل رہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: 22 بہمن کی سخت سردی اور یوم قدس کے موقع پر رمضان میں شدید گرمی میں عوام کی میدان میں موجودگی سبھی اللہ کی نصرت اور مدد کی نشانیاں ہیں اور ہم بھی اسی بنیاد پر عوام پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری گفتگو اسی احساس ، صداقت اور عوامی بصیرت کے دائرے میں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکرات جاری رکھنے کے سلسلے میں مجھے فریق ثانی کی رفتار پر تشویش ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں بعض حمایتوں اور مخالفتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں مبالغہ اور عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ صبر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ مسئلہ کونسا رخ اختیار کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکام پر زوردیا کہ وہ مذاکرات کی تفصیلات سے عوام بالخصوص دانشوروں کو آگاہ کریں اور حقائق ان کے سامنے پیش کریں کیونکہ کوئی بھی چیز پوشیدہ اور مخفیانہ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کی تفصیلات سے عوام اور دانشوروں کو آگاہ کرنے کو عوام اور حکام کے درمیان ہمدلی کا مصداق قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہمدلی کوئی دستوری معاملہ نہیں ہےبلکہ اس کو وجود میں لانا چاہیے اور اسے رشد و فروغ دینا چاہیے اور عوام کے ساتھ ہمدلی پیدا کرنے کے سلسلے میں موجودہ شرائط مناسب فرصت اور بہترین موقع ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکام کو ایک تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا: حکام جو قومی مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں صداقت اور دلچسپی رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ مذاکرات پر تنقید کرنے والوں کو دعوت دیں اور ان کے ساتھ گفتگو کریں ؛ اگر ان کے مطالب میں مذاکرات کے لئے کوئی مفید بات سامنے آئے تو اس سے استفادہ کریں اور اگر کوئی مفید بات نہ ہو تو انھیں قانع کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دلوں اور اعمال کو یکساں اور ہمدل بنانے کا یہ مصداق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے حکام کہیں کہ تین ماہ کا وقت ہے بحث و گفتگو اور تبادلہ خیال کے لئے وقت کم ہے اور ناقدین کی باتیں سننے کا موقع نہیں ہے لیکن انھیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ تین ماہ کا وقت کوئی ناقابل تغییر وقت نہیں ہے اگر مدت بڑھا دی جائے تو کوئی اشکال نہیں ہے جیسا کہ فریق ثانی نے بھی ایک دور میں مذاکرات کو سات ماہ تک مؤخر کردیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو صرف ایٹمی معاملے تک محدود قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ ایٹمی معاملے میں مذاکرات ایک تجربہ ہیں اگر فریق ثانی اپنی ضد ، کج فہمی اور عہد شکنی ترک کردے تو دیگر موضوعات پر بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن اگر وہ اپنی بد عہدی پر باقی رہے تو ہمارا سابقہ تجربہ امریکہ پر عدم اعتماد کو مزید قوی بنا دےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کو عالمی برادری کہنے والوں کے مؤقف پر افسوس اور شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے مد مقابل فریق جو عہد شکنی کرتے ہیں وہ صرف امریکہ اور تین یورپی ممالک ہیں نہ عالمی برادری ، عالمی برادری میں 150 ممالک شامل ہیں جن کے صدور اور اعلی نمائندوں نے چند سال قبل تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس میں شرکت کی تھی ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمیں عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے یہ بات بالکل غلط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایٹمی معاملے کے سلسلے میں خصوصی جلسات میں حکام کو پیش کی جانے والی اپنی سفارشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرا اس بات پر اصرار ہے کہ حکام ملک کی موجودہ ایٹمی پیشرفت کو بہت زيادہ اہمیت دیں اور اس کو کم اہمیت نہ سمجھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی صنعت کو ملک کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض روشنفکر خیال کرتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی صنعت کا کیا فائدہ ہے؟ ان کی یہ بات صرف ایک فریب ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آج صبح بعض خواتین ، شعراء اور ذاکرین اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور ایٹمی مذاکرات نیز یمن کے حالات کے بارے میں بہت ہی اہم مطالب کو بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کا آغاز اس مقدمہ سے کیا کہ " بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ حالیہ ایٹمی مذاکرات کے بارے میں رہبری نے کیوں کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا ہے؟ "
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: رہبری کی طرف سے مؤقف بیان نہ کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مؤقف بیان کرنے کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ ملک کے حکام اور ایٹمی مذاکراتی ٹیم کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی کام انجام پذیر نہیں ہوا ہے اور فریقین کے درمیان ابھی تک کوئی ایسا معاملہ طے نہیں پایا ہے جو پابند بنانے والا ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسی صورتحال میں مؤقف بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ حالیہ ایٹمی مذاکرات کے حامی ہیں یا مخالف ، تو میں کہوں گا کہ نہ میں حامی ہوں اور نہ ہی مخالف، کیونکہ ابھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تمام مشکلات اس کے بعد ہیں کیونکہ اس کی تفصیلات کے بارے میں بحث و گفتگو ہوگی کیونکہ فریق مقابل، عہد شکن، ،لجوج، ضدی اور پشت میں خنجر گھونپنے والا ہے اور ممکن ہے وہ مذاکرات کے تفصیلی مرحلے میں ملک و قوم اور مذاکراتی ٹیم کو اپنے محاصرے میں کرلے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اب تک جو کام انجام پذیر ہوا ہے نہ وہ اصل معاہدہ ہے، نہ معاہدے تک پہنچنے والا قدم ہے اور نہ ہی مذاکرات کا متن قابل ضمانت ہے حتی اس معاملہ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ اعلامیہ معاہدے تک پنہچےگا لہذا اس مرحلے پر مبارکباد پیش کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوران چند نکات کی یاددہانی کرتے ہوئے فرمایا: میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں کبھی بھی پرامید نہیں تھا اور یہ مسئلہ بھی کسی وہم و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ ان تجربات کی روشنی میں ہے جو اس سلسلے میں موجود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ ایام میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں اگر مستقبل میں یادداشتیں، واقعات اور تفصیلات شائع ہوئیں تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے اس تجربہ کا اصل سرچشمہ کہاں سے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں پرامید نہ ہونے کے باوجود میں نے مذاکرات کی حمایت کی اور اگر کوئی یہ کہے کہ رہبری معاہدے تک پہنچنے کے مخالف ہیں تو ایسے شخص نے حقیقت کے خلاف بات کہی ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک و قوم کے مفادات کی حفاظت کرنے والے معاہدے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے فرمایا: البتہ میں نے یہ کہا ہے کہ برے معاہدے سے معاہدہ نہ کرنا بہتر ہے کیونکہ ایسے معاہدہ کو قبول نہ کرنا بہتر ہےجو ایرانی قوم کے حقوق ، مفادات اور ان کی عزت و شرف کو پامال کرے اور ایرانی قوم کی ذلت اور بے حرمتی کا باعث ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک ابہام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کی تفصیلات رہبری کے زیر نظر ہیں حالانکہ یہ بات دقیق نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں مذاکرات کی نسبت بے تفاوت نہیں ہوں لیکن ابھی تک مذاکرات کی تفصیلات میں مداخلت نہیں کی ہے اور اس کے بعد بھی مداخلت نہیں کروں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں نے بلند مدت مسائل، اصلی خطوط و حدود اور ریڈ لائنوں کے متعلق صدر جمہوریہ اور بعض موارد میں وزیر خارجہ کو آگاہ کیا ہے لیکن تفصیلات ان کے پاس ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں مذاکراتی ٹیم پر اعتماد رکھتا ہوں، اوراس کے بارے میں ابھی تک شک و تردید سے دوچار نہیں ہوا ہوں اور انشاء اللہ کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا لیکن مذاکرات کے بارے میں مجھے سخت تشویش ضرور ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کے مکر و فریب، عہد شکنی ، جھوٹ ، صحیح راہ کے برخلاف حرکت کو اپنی تشویش کا اصلی سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: حالیہ مذاکرات میں فریق ثانی کی غلط اور متضاد رفتار کا ایک نمونہ فوری طور پر سامنے آگیا کہ مذاکرات ختم ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد مذاکرات کی تشریح کے سلسلے میں وہائٹ ہاؤس نے چند صفحوں پر مشتمل اعلامیہ شائع کردیا جس میں اکثر موارد حقیقت کے بالکل خلاف تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے اعلامیہ کے متن کی تحریر دو گھنٹوں میں ممکن نہیں ہے لہذا وہ ایک طرف مذاکرات میں مشغول تھے تو دوسری طرف وہ مذاکرات کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق غلط اور غیر حقیقی اعلامیہ تیار کررہے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کے جھوٹ بولنے، عہد شکن ہونے اور دھوکہ باز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:دوسرا نمونہ یہ ہے کہ وہ ہر دفعہ مذاکرات کے بعد آشکارا بیان دیتے ہیں اور پھر خصوصی طور پر کہتے ہیں کہ ہمارا بیان صرف اندرونی معاملات اور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے ہے جبکہ ان مسائل کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: معروف ضرب المثل ہے کہ " کافر سب کو اپنا ہم مذہب اور ہم عقیدہ سمجھتا ہے" کہتے ہیں کہ ایران کے رہبر بھی اگر مذاکرات کی مخالفت کریں تو ان کی حقیقی بات نہیں ہے بلکہ اندرونی سطح پر آبرو حفظ کرنے کے لئے ہے حالانکہ وہ ایران کے اندر کے حقائق کو نہیں سمجھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے ساتھ رہبری کی باتیں باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہیں جس طرح عوام کو مجھ حقیر پر اعتماد ہے اسی طرح مجھے بھی عوام پر مکمل اعتماد ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ ایرانی عوام کو اللہ تعالی کی ہمیشہ پشتپناہی حاصل رہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: 22 بہمن کی سخت سردی اور یوم قدس کے موقع پر رمضان میں شدید گرمی میں عوام کی میدان میں موجودگی سبھی اللہ کی نصرت اور مدد کی نشانیاں ہیں اور ہم بھی اسی بنیاد پر عوام پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری گفتگو اسی احساس ، صداقت اور عوامی بصیرت کے دائرے میں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکرات جاری رکھنے کے سلسلے میں مجھے فریق ثانی کی رفتار پر تشویش ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں بعض حمایتوں اور مخالفتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں مبالغہ اور عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ صبر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ مسئلہ کونسا رخ اختیار کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکام پر زوردیا کہ وہ مذاکرات کی تفصیلات سے عوام بالخصوص دانشوروں کو آگاہ کریں اور حقائق ان کے سامنے پیش کریں کیونکہ کوئی بھی چیز پوشیدہ اور مخفیانہ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کی تفصیلات سے عوام اور دانشوروں کو آگاہ کرنے کو عوام اور حکام کے درمیان ہمدلی کا مصداق قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہمدلی کوئی دستوری معاملہ نہیں ہےبلکہ اس کو وجود میں لانا چاہیے اور اسے رشد و فروغ دینا چاہیے اور عوام کے ساتھ ہمدلی پیدا کرنے کے سلسلے میں موجودہ شرائط مناسب فرصت اور بہترین موقع ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکام کو ایک تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا: حکام جو قومی مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں صداقت اور دلچسپی رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ مذاکرات پر تنقید کرنے والوں کو دعوت دیں اور ان کے ساتھ گفتگو کریں ؛ اگر ان کے مطالب میں مذاکرات کے لئے کوئی مفید بات سامنے آئے تو اس سے استفادہ کریں اور اگر کوئی مفید بات نہ ہو تو انھیں قانع کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دلوں اور اعمال کو یکساں اور ہمدل بنانے کا یہ مصداق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے حکام کہیں کہ تین ماہ کا وقت ہے بحث و گفتگو اور تبادلہ خیال کے لئے وقت کم ہے اور ناقدین کی باتیں سننے کا موقع نہیں ہے لیکن انھیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ تین ماہ کا وقت کوئی ناقابل تغییر وقت نہیں ہے اگر مدت بڑھا دی جائے تو کوئی اشکال نہیں ہے جیسا کہ فریق ثانی نے بھی ایک دور میں مذاکرات کو سات ماہ تک مؤخر کردیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو صرف ایٹمی معاملے تک محدود قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ ایٹمی معاملے میں مذاکرات ایک تجربہ ہیں اگر فریق ثانی اپنی ضد ، کج فہمی اور عہد شکنی ترک کردے تو دیگر موضوعات پر بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن اگر وہ اپنی بد عہدی پر باقی رہے تو ہمارا سابقہ تجربہ امریکہ پر عدم اعتماد کو مزید قوی بنا دےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی کو عالمی برادری کہنے والوں کے مؤقف پر افسوس اور شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے مد مقابل فریق جو عہد شکنی کرتے ہیں وہ صرف امریکہ اور تین یورپی ممالک ہیں نہ عالمی برادری ، عالمی برادری میں 150 ممالک شامل ہیں جن کے صدور اور اعلی نمائندوں نے چند سال قبل تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس میں شرکت کی تھی ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمیں عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے یہ بات بالکل غلط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایٹمی معاملے کے سلسلے میں خصوصی جلسات میں حکام کو پیش کی جانے والی اپنی سفارشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرا اس بات پر اصرار ہے کہ حکام ملک کی موجودہ ایٹمی پیشرفت کو بہت زيادہ اہمیت دیں اور اس کو کم اہمیت نہ سمجھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی صنعت کو ملک کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض روشنفکر خیال کرتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی صنعت کا کیا فائدہ ہے؟ ان کی یہ بات صرف ایک فریب ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انرجی ،نیوکلیئر میڈیسن، تازہسمندری پانی، اور زراعتکے شعبوں میں پیشرفتہ ایٹمی صنعت کی ضرورت اور نیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی ایٹمی صنعت کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ایرانی جوانوں کی ذاتی صلاحیتوں کے نتیجے میں اس اہم صنعت کا حصول ممکن ہوا ہےلہذا ایٹمی صنعت میں ترقی اور پیشرفت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چند جرائم پیشہ ممالک منجملہ امریکہ کی طرف سے ایٹم بم سے استفادہ اور فرانس کی جانب سے خطرناک ایٹمی تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ ہم پر ایٹم بم بنانے کی کوشش کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ ایران کا اسلامی نظام شرعی فتوی اور اسی طرح عقلانی بنا پر کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش و کوشش میں نہیں رہا اور نہ ہی رہے گا اور اس کو سر دردی کا باعث سمجھتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق ثانی پر اعتماد نہ کرنے کو ایرانی حکام کا دوسرا مطالبہ شمار کرتے ہوئے فرمایا: حال ہی میں ایک ایرانی اہلکار نے صریح الفاظ میں کہا کہ ہمیں فریق مقابل پر بالکل اعتماد نہیں ہے اور اس قسم کا مؤقف بہت اچھا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فریق مقابل کی مسکراہٹ کے فریب میں نہ آنے اور اس کے کھوکھلے وعدوں پر اعتماد نہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس مسئلہ کا آشکارا نمونہ حالیہ اعلامیہ کے بعد امریکی صدر کا خطاب اور مؤقف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحکام سے پابندیوں کے یکدم خاتمہ کو دیگر مطالبات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: یہ موضوع بہت ہی اہم ہے اور پابندیوں کو معاہدے کے دن ہی مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پابندیوں کو کسی نئے پروگرام کے تحت اٹھانے کا منصوبہ ہو تو پھر مذاکرات بے معنی ثابت ہوں گے کیونکہ مذاکرات کا مقصد پابندیوں کا خاتمہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے مطالبات میں ایٹمی پروگرام کی تفتیش اور معائنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: معائنہ کی اجازت مطلق نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ معائنہ کو بہانہ بنا کر ملک کے دفاعی اور سکیورٹی شعبوں میں نفوذ پیدا نہ کرسکیں اور ملک کے دفاعی اور فوجی حکام بھی مجاز نہیں ہیں کہ وہ معائنہ کے بہانے سے اغیار کو فوجی اور دفاعی جگہوں کا دورہ کرائیں اور انھیں دفاعی پیشرفت کو متوقف بھی نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کی محکم دفاعی توانائی اور قوم کی مضبوط اور مستحکم مشت فوجی شعبہ میں اسی طرح مضبوط اور مستحکم رہنی چاہیے اور اسے روز بروز مضبوط اور مستحکم تر ہونا چاہیے اور اسی طرح ہمارے مختلف نقاط میں دلیر اور بہادر بھائیوں کے بارے میں مذاکرات میں کوئی خدشہ وارد نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر نکرانی کے متعلق روش اور طریقہ کار کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں غیر متعارف معائنہ کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے ایران معائنہ کے حوالے سے ایک خاص ملک بن جائے گا بلکہ معائنہ وہی متعارف معائنہ ہونا چاہیے جو دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے بھی ہے نہ اس سے زیادہ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی آخری سفارش میں اایران کے ایٹمی پروگرام کی فنی توسیع اور فروغ پر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں میں سائنسی اور فنی تحقیقات کو جاری رکھنے پر تاکید کی ، البتہ ممکن ہے کہ مذاکراتی ٹیم بعض محدودیتوں کو قبول کرے اور اس سلسلے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن فنی توسیع قدرت اور قوت کے ساتھ جاری رہنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان مطالبات کو پورا کرنے اور عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری مذاکراتی ٹیم کے دوش پر ہے اور اسے آگاہ و باخبر افراد ، امین افراد اور اسی طرح تنقید کرنے والوں کے نظریات سے مذاکرات کی روش اور طریقہ کار میں استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں یمن کے بہت ہی اہم حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سعودیوں نے یمن پر حملہ کرکے بہت بڑی غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کیا ہے اور انھوں نے علاقہ میں بری بدعت کی بنیاد رکھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن میں سعودی عرب کی جارحیت وبربریت کو غزہ میں اسرائیلی جراحیت اور بربریت سے مشابہ قراردیا اور اس معاملے کے دو اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن پر سعودی عرب کے حملے کو جنگی جرائم ، نسل کشی اور بین الاقوامی سطح پر قابل تعقیب جرم قراردیتے ہوئے فرمایا: بچوں کو قتل کرنا، گھروں کو ویران کرنا اور ایک قوم و ملک کے قومی اثاثوں ، بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنا بہت بڑی جنایت اور عظیم جرم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس جنگ میں سعودی عرب کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑےگا اور انھیں اس جنگ میں کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس جنگ میں سعودیوں کی شکست کی پیشنگوئی کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس پیشنگوئی کی دلیل واضح ہے کیونکہ صہیونیوں کی فوجی توانائی سعودیوں سے کئی گنا زیادہ تھی اور غزہ کا علاقہ بھی محدود اور چھوٹا علاقہ تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے حالانکہ یمن ایک بہت بڑا اور وسیع و عریض ملک ہے اور اس کی آبادی کئی ملین آبادی افراد پر مشتمل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس جنگ میں سعودی عرب پر مہلک ضرب وارد ہوگی اور یمنی عوام سعودی عرب کی ناک پکڑ کرزمین پر رگڑ دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کے مسائل میں سعودی عرب کے سابقہ ریکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے اور سعودیوں کے درمیان گوناگوں سیاسی مسائل میں متعدد اختلافات موجود ہیں لیکن ہم ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ وہ خارجہ پالیسی میں متانت اور وقار سے پیش آتے ہیں ، لیکن چند بے تجربہ سعودی جوانوں نے سعودی عرب کے امور کی زمام تھام لی ہے اور متین رفتار پر وحشی گری کو غالب بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کام یقینی طور پر ان کے ضرر اور نقصان میں تمام ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سعودی عرب کی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ میں یہ جنگی حرکت ناقابل قبول ہےاور میں خبردار کرتاہوں کہ یمن میں جرم و جنایت کا ارتکاب فوری طور پر بند کردیا جائے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکی حکومت کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت اور دفاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی یہ عادت ہے کہ وہ تمام مسائل میں مظلوم کی حمایت کرنے کے بجائے ظالم کی حمایت کرتا ہے لیکن اس معاملے میں ان کو بھی شدید نقصان پہنچےگا اور انھیں بھی شکست نصیب ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن میں ایران کی مداخلت کے بے بنیاد دعوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے جنگی جہازوں نے یمن کی فضائی حدود کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے اور یمن میں مداخلت کے لئے ایسے احمقانہ بہانے تلاش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی نظر میں ، دیگر قوموں کی نظر میں اور عالمی رائے عامہ کے نزدیک مردود ہیں اپنی جنایات اور جرائم کو مداخلت نہیں سمجھتے اور بےبنیاد اور جھوٹے الزام ایران پر عائد کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن کی قوم کو ایک باسابقہ اور اپنے ملک کی حکومت بنانے کی صلاحیت سے سرشار قوم قراردیا اور ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سعودی عرب کو یمنی قوم کے خلاف بھیانک اور خوفناک جرائم کو فوری طور پر بند کردینا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قدرت کا خلاء ایجاد کرکے لیبیا کے خوفناک منصوبہ کو یمن میں عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یمنی عوام کے دشمنوں کے خطرناک منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خوش قسمتی سے وہ اس مقصد میں ناکام ہوگئے کیونکہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی روش پر اعتقاد رکھنے والے یمن کے مؤمن شیعہ و سنی ، زیدی و حنفی سب ان کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور اس کے بعد بھی وہ استقامت کا مظاہرہ کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں مرحوم جناب آہی کو ایک متعہد ، نیک اور پابند مداح کے طور پر خراج تحسین پیش کیا اور مداحی کے سلسلے میں مداحوں اور ذاکرین کو بعض سفارشات پیش کیں۔
مجالس اہلبیت علیھم السلام میں عظیم جمعیت بالخصوص جوانوں کی موجودگی کی قدر و قیمت پہچاننا ، دینی معارف کی ترویج ، زندگی میں اسلامی روش اور اس دور کی سنگين ذمہ داریوں پر عمل کے سلسلے میں مخاطبین کو ہدایت کرنے کا پہلا نکتہ تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔
جوانوں کے اعتقاد میں گرہ ڈالنے، خرافات اور انحرافات سے پرہیز دوسرا نکتہ تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
آپ کا تبصرہ