مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران کے مرحوم وزیر خارجہ شہید ڈاکٹر امیر عبداللہیان نے یورپی وفد کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران اور شہید قاسم سلیمانی نے عالمی امن اور سلامتی میں جو کردار ادا کیا اسے یاد رکھتے ہوئے دنیا کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
شہید عبداللہیان کی تدفین میں 65 سے زائد ممالک کے صدور، وزراء، اعلی حکام اور نمائندوں وغیرہ کی سطح پر شرکت شہید کے مقام کی عظمت کا واضح ثبوت ہے۔
اس سلسلے میں مہر خبررساں ایجنسی کے رپورٹر نے عراق کی سپریم اسلامک کونسل کے سرکاری ترجمان اور سیاسی امور کے ماہر "علی فاضل الدفاعی" سے شہید امیر عبداللہیان کے کردار اور کارناموں کے بارے میں ایک انٹرویو کیا جو حسب ذیل ہے:
مہر نیوز: آپ کو شہدائے خدمت کی شہادت کی خبر کیسے ملی اور عراق کے حکومتی، سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس خبر کا کیا اثر ہوا؟ خاص طور پر جب ہم نے دیکھا کہ عراق سے بڑے بڑے وفود ایرانی شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے تہران آئے ہیں۔ نیز عراقی عوام کے وفود نے عراق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے سامنے تعزیت کا اظہار کیا۔ آپ کے خیال میں یہ واقعات کس حد تک عراق اور ایران کی حکومتوں اور عوام کے درمیان مربوط تعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں؟
ہم ایران کے مرحوم صدر سید ابراہیم رئیسی اور مرحوم وزیر خارجہ امیرعبداللہیان اور ساتھیوں کے ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق خبر کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے اور سوشل میڈیا پر اس خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی عراقی عوام نے دعائیں مانگنا شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس ہیلی کاپٹر کے مسافروں کو محفوظ رکھے، یہ عراقی قوم کا ایران کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا ابتدائی اظہار تھا۔
ہیلی کاپٹر کے ملبے کی تصویریں ملنے اور شہداء کی لاشیں ملنے کے بعد وہ دن ہمارے لیے انتہائی افسوسناک تھا۔ غم کا ماحول ایسا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اسے ذاتی مصیبت سمجھتا تھا اور عراقی عوام یونیورسٹیوں اور کام کی جگہوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے نظر آتے تھے۔
اس سانحے کے فوراً بعد عراقی حکومت نے ملک میں سرکاری اور عوامی سوگ کا اعلان کیا اور عراق کے مختلف علاقوں سے عوامی وفود، سیاسی جماعتوں، ثقافتی مراکز اور سماجی کارکنوں نے بغداد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے اور نجف اشرف، کربلا اور بصرہ میں ایرانی قونصل خانوں میں حاضری دے کر تعزیت کا ظہار کیا۔
اس کے علاوہ اعلیٰ سرکاری سطح پر بڑے عراقی وفود بھی شہداء کی نماز جنازہ کے دن تہران میں حاضر ہوئے جن میں وزیر اعظم محمد شیسع السودانی، وفاقی عدالت کے صدر محمد جاسم الامیری، اس کے ساتھ ساتھ متعدد وزراء اور گورنرز "محسن المندلوی" پارلیمنٹ کے اسپیکر اور متعدد اراکین پارلیمنٹ اور جماعتوں کے سربراہان شامل تھے۔
نیز عراقی کردستان کے سربراہ نے اسلامی جمہوریہ ایران میں مقیم دیگر عراقی شخصیات اور گروہوں کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کی۔ یہ عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور دونوں قوموں کے درمیان گہرے رشتے کو ظاہر کرتے ہیں جو تاریخی، مذہبی اور انسانی بنیادوں پر استوار ہیں۔
اس کے علاوہ عراق کے مرجع اعلیٰ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ارشادات کا عراقی قوم پر بہت اثر ہوا۔ جہاں انہوں نے اس سانحہ پر تعزیت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملت ایران کے لیے ایک دردناک سانحہ قرار دیا۔
مہر نیوز: شہید حسین امیرعبداللہیان نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے بھی عراق کے بہت سے دورے کیے اور اس سلسلے میں بہت سی سرگرمیاں انجام دیں۔ آپ اسے ذاتی، سفارتی اور سیاسی طور پر کیسے دیکھتے ہیں؟
2019 میں، میں نے عراق کی سپریم اسلامی کونسل کے نوجوانوں کے ایک گروپ کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کا دورہ کیا، جہاں ہماری ملاقات شہید حسین امیرعبداللہیان سے ہوئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر تھے۔ وہاں، ہم نے علاقائی امور اور اس کے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ عراق اور ایران کے درمیان مستحکم تعلقات اور دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں بات کی۔
میں شہید امیر عبداللہیان کے کردار کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے عہدوں میں بے حد کشادہ دلی اور جرأت کے مالک تھے اور اسلامی انقلاب کی بنیاد پر جو طرز عمل اختیار کیا تھا اس پر بہت اعتماد رکھتے تھے اور انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کو پوری طرح محسوس کیا تھا۔ اور اس کی نمائندگی کے لیے انہوں بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔ شہید امیر عبداللہیان نے ایران کے داخلی اور بیرونی دشمنوں اور مخالفین کے سامنے کبھی کمزوری یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
اعلی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود، شہید امیرعبداللہیان میں بڑی عاجزی پائی تھی اور ان کے طرز عمل میں اسلامی آداب صاف نظر آتے تھے، اور اسی وجہ سے وہ بہت جلد ان تمام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے جن کے ساتھ وہ پیش آئے۔ شہید عبداللہیان کے عربی زبان پر عبور نے خطے میں نئے افق کھولے اور مختلف عرب ممالک کے حکام کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کرنے میں ان کی بہت مدد کی۔
شہید امیر عبداللہ ایک مزاحمتی شخصیت تھے اور تحریک آزادی اور تمام مظلوموں کے حامی تھے جس کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی ان کی عزت اور محبت کرتے تھے۔ ایران کی بین الاقوامی سیاست میں ان کا ایک خاص نقطہ نظر تھا جس کی بنیاد اس اصول پر تھی کہ خطے اور ایران کی طاقت کو باہم مربوط، موثر اور لیکن متمائز ہونا چاہیے۔
بہت سے لوگ شہید امیرعبداللہیان کو ایک انتھک انسان کے طور پر جانتے ہیں اور انہیں ایران کی سخت طاقت کا نرم چہرہ سمجھتے ہیں۔ شہید امیر عبداللہ کی خطے اور دنیا میں کئی سرگرمیوں اور بے شمار دوروں اور نہ رکنے والی کوششوں کو دیکھتے ہوئے، وہ ایران کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے دور میں ایک نیا سفارتی منصوبہ تیار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے اور اس سلسلے میں انہیں کونسی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ایران اور مزاحمتی محور ممالک کا کیا فائدہ حاصل ہوا؟
شہید حسین امیرعبداللہیان کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ان کی اپنے کیریئر میں متعدد عہدوں پر اعلیٰ مہارت تھی جس نے انہیں سیاسی اور سفارتی کام میں اعلیٰ قابلیت اور ذہانت بخشی۔ ڈاکٹر امیر عبداللہیان صرف ایک علمی شخصیت نہیں تھے جو صرف نظریات پیش کرتے تھے بلکہ انہوں نے مختلف حالات اور چیلنجز کا عملی طور پر مقابلہ کیا۔
شہید امیر عبداللہیان کو اہم ایشوز پر خصوصی عبور حاصل تھا، جس میں جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا انتظام، 7 سال بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی، نیز روس اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدوں کو انجام دینا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شہید نے مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اس قدر مرکزی کردار ادا کیا کہ وہ عالمی حلقوں میں فلسطینی کاز کے سرکاری حامی کے طور پر جانے جاتے تھے۔
شہید امیر عبداللہیان نے مشرق کی طرف جھکاؤ کے نقطہ نظر کے ساتھ مثبت ہم آہنگی کے ذریعے پیچیدہ مسائل پر قابو پانے اور چین، روس اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے اور معاہدے طے کرنے پر بھی زور دیا۔
دریں اثنا، شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی درحقیقت ملکی امور کے نظم و نسق میں امام خامنہ ای کے نمائندے تھے اور انہوں نے ایران کا ایک طاقتور، انقلابی اور دانشمندانہ چہرہ پیش کیا۔ اس وژن کو بین الاقوامی فورمز اور مشرق و مغرب کے ممالک کے ساتھ مذاکرات میں عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری بھی شہید حسین امیرعبداللہ کے ذمےبتھی اور انہوں نے اپنی ہمت اور محنت سے اس میدان میں کامیابی حاصل کی۔
مہر نیوز: شہید امیر عبداللہ نے مزاحمت کی حمایت میں حساس اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا اور مزاحمت کے اہم محافظ اور تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر فلسطین اور غزہ کی آواز اس حد تک بلند کی کہ انہیں مزاحمتی محور کے وزیر کا خطاب دیا گیا۔ لہٰذا، اگر ہم ایک وسیع اور واضح تصویر پیش کرنا چاہیں کہ شہید امیر عبداللہ نے مزاحمتی محور کے ممالک کو کیا دیا، تو ہمیں کیسا سناریو نظر آتا ہے؟
ایسے حالات میں کہ جب خلیج فارس اور خطے کے بعض ممالک کے صیہونی حکومت کے ساتھ ذلت آمیز معاہدوں کے بعد مسئلہ فلسطین کو فراموش کیا جا رہا تھا اور امریکہ فلسطین کو محض ایک تاریخی کہانی میں بدلنے کی کوشش کر رہا تھا، تاہم ایران نے فلسطین کی حمایت میں اپنے موقف کو جاری رکھا اور فلسطین کے نصب العین کو ترجیح دی اور اسے ایران میں اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے استحکام میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا۔
سلامتی کونسل اور اس کی قراردادوں پر صیہونی عبوری حکومت کی حمایت کرنے والے مغربیوں کے وسیع تسلط کے باوجود شہید امیر عبداللہیان کی آواز مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع میں بہت مضبوط تھی اور انہوں نے ہمیشہ غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی انسانی موقف پر زور دیا۔
شاید شہید امیر عبداللہیان کے سب سے نمایاں اقدامات میں سے ایک ان کے بین الاقوامی دورے تھے جن میں عراق، لبنان، شام اور قطر کے دارالحکومت شامل تھے اور انہوں نے خطرناک صورت حال میں اسرائیلی قبضے کے خلاف نئے محاذ کھولنے کے بارے میں اپنے بیانات میں کھل کر بات کی۔ طوفان الاقصی کے بعد غزہ کی پٹی میں جہاں صہیونی قابض افواج غزہ میں شہریوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے خلاف انتہائی وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں انہوں نے ٹھوس موقف اختیار کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا یہ شاندار، منفرد، دلیرانہ اور انصاف پسند کردار شہید امیر عبداللہیان نے ادا کیا اور بین الاقوامی فورمز پر ان کی فعال اور موئثر موجودگی سے قابض حکومت کے جرائم کے خلاف ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔ شہید امیر عبداللہ کی اس بے باکی، بہادرانہ کردار اور اعلیٰ مہارت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے انہیں مزاحمتی محور کا وزیر کہا۔
ہم اس سیاسی اور سفارتی وزن کے ساتھ کسی شخصیت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرسکتے ہیں اور اس وقت صرف ایک لفظ ہی سچائی کا اظہار کرسکتا ہے کہ ان کا نقصان نہ صرف ایران بلکہ فلسطین کاز اور دنیا کے آزاد لوگوں کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔