مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: واشنگٹن لندن اتحاد اور یمنی نیشنل آرمی کے درمیان براہ راست تصادم کے کا وقت آگیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک اور امریکی صدر جو بائیڈن نے یمن کے خلاف فوجی حملے کی منظوری دی۔ اس فوجی اتحاد میں آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ، بحرین اور دیگر مغربی اتحادی ہیں۔ واشنگٹن اور لندن کی جانب سے حملے کا حکم جاری ہونے کے بعد امریکی جاسوس ڈرون نے بحیرہ احمر کے جنوب میں پرواز کی۔
مشرق وسطی کے علاقے میں امریکی فضائیہ کے کمانڈ کے مطابق جمعہ کی صبح واشنگٹن نے یمنی فورسز کے 16 ٹھکانوں میں سے 60 اہداف کو نشانہ بنایا۔ جن میں یمن کے ٹریننگ اینڈ کنٹرول سینٹرز، ایمونیش ڈپو، میزائل اور ڈرون لانچ سسٹم اور یمنی فضائی دفاعی ریڈار سسٹم ان اہداف میں شامل تھے۔
اس واضح جارحیت میں جنگی جہاز، ایک آبدوز اور 100 سے زیادہ گائیڈڈ میزائل استعمال کیے گئے ہیں۔
المسیرہ ٹی وی چینل کے مطابق صنعاء کے شمال میں الدیلمی ایئر بیس اور حدیدہ بندرگاہ کے مضافات اور زبید کے علاقوں پر فضائی حملے کئے گئے۔
امریکہ اور برطانیہ نے یمن پر حملہ کیوں کیا؟
19 نومبر سے اب تک یمنی فوج نے "میدانی اتحاد" کی حکمت عملی کی بنیاد پر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی فضائی زمینی جارحیت کے جواب میں اس رجیم سے متعلق تمام تجارتی اور فوجی جہازوں کو نشانہ بنایا۔ یمن کے نہر سوئز اور آبنائے باب المندب کے علاقے میں موثر اقدامات نے 10 فیصد عالمی تجارت اور 65 فیصد عالمی سمندری تجارت کو متاثر کیا تھا۔ بہت سی بڑی مغربی کمپنیوں نے اعلان کیا کہ وہ اب بحیرہ احمر کو عبور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور لمبے راستے کا انتخاب کرکے ہدف کی منڈیوں کی طرف بڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
یمنی قومی فوج کی کارروائیوں کے جواب میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے مغربی ایشیائی خطے کا دورہ کرکے دس ممالک کی موجودگی کے ساتھ ایک سمندری اتحاد "گارڈینز آف ویلفیئر" کے قیام کا اعلان کیا۔
اس "میری ٹائم سیکورٹی" گشت کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باوجود، یمنی فوج بحیرہ احمر اور باب الاسد میں اسرائیل مخالف کامیاب کارروائیوں کو دہراتے ہوئے امریکی بحری اتحاد کی ساکھ کو تیزی سے تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ایسی صورت حال میں واشنگٹن نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگی مشین کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام کیے بغیر تہران کو ثالثی کے ذریعے یمنی مزاحمت کو روکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس درخواست کے جواب میں تہران نے دفاعی علاقے میں اپنے اتحادیوں کی آزادی اور بحیرہ احمر کی سلامتی کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ یمنیوں کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
بحیرہ احمر میں یمنی قومی فوج کی اسرائیل مخالف کارروائیوں کا تسلسل سلامتی کونسل سے امریکہ اور جاپان کی یمن مخالف قرارداد کی منظوری کا باعث بنا۔
اس "سیاسی اہداف کی حامل" قرار داد میں یمنی مزاحمت کے لیے ایران کی مسلح حمایت کے حوالے سے بعض بے بنیاد دعووں کو دہراتے ہوئے یمنی نیشنل آرمی سے کہا گیا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کا عمل فوری طور پر روک دے۔
تاہم اس قرارداد کی چین، روس، الجزائر اور موزمبیق نے مخالفت کی جب کہ 11 ووٹ موافقت میں پڑے۔
فلسطین کاز کی حمایت میں یمنی اقدام
گیارہ جنوری کو امریکی سینٹکام نے خلیج عدن میں شپنگ لائنوں پر فائر کیے جانے والے اینٹی شپ بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔ برطانوی میری ٹائم ٹریڈ سینٹر کے اندازوں کے مطابق یہ واقعہ 19 نومبر کے بعد صیہونی حکومت سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں پر 27 واں مزاحمتی حملہ تھا۔
یمن میں سٹریٹجک اہداف پر امریکی اتحاد کے حملے کے آغاز سے چند گھنٹے قبل "برٹش ٹائمز" اخبار نے یمنی مزاحمت کے خلاف برطانوی اور امریکی حملوں کے آغاز کو متوقع جانا۔ امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے لکھا کہ یمن کے خلاف امریکی اور برطانوی فوجی کارروائی کا بنیادی مقصد خطے میں کشیدگی کو ہوا دئے بغیر صنعاء کے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے آپریشنل امکان کو محدود کرنا ہے۔
یمن پر امریکی اتحاد کے حملے کے بارے میں بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد، یمن کی انصار اللہ تحریک کی سیاسی کونسل کے رکن عبدالسلام نے ایکس اکاونٹ پر لکھا: "امریکہ کو ہمارے خلاف حملے کرنے دیں؛ یمنیوں کا ردعمل ان کی توقع سے بڑھ کر ہو گا اور یمن پر کسی بھی حملے کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔
صنعا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے بھی اسرائیلی جہازوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کرنے کے ساتھ بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں یمن کی جانب سے بین الاقوامی بحری جہازوں کو خطرہ نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ کے اس اقدام کو حماقت قرار دیا جس سے یمنیوں کی غزہ کی حمایت میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یمن پر امریکی اتحاد کے حملے پر کیا ردعمل آیا ؟
یمن پر امریکی-برطانوی حملے پر یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحییٰ سریع نے انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک بدر الدین الحوثی کی تقریر کا ایک حصہ شائع کرتے ہوئے امریکی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے یمن پر امریکی اور برطانوی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا: "ہم یمن کے متعدد شہروں پر آج صبح امریکہ اور برطانیہ کے فوجی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے ایک من پسند اقدام قرار دیتے ہیں جو یمن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
فلسطینی مجاہدین تحریک نے ایک بیان شائع کرکے یمن کی حمایت اور تعریف کرتے ہوئے امریکی حملوں کو پوری اسلامی دنیا اور عرب ممالک پر حملہ قرار دیا۔
لبنان کی حزب اللہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے امریکہ کے اقدامات کی مذمت کی اور واشنگٹن کے نام ایک پیغام میں لکھا کہ یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے حملے کھلی جارحیت ہیں۔ اس جارحیت نے ثابت کر دیا کہ یہ ملک غزہ میں صیہونی حکومت کے تمام جرائم میں ملوث ہے۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ریاض بحیرہ احمر میں فوجی آپریشن اور صنعاء کے خلاف فضائی حملوں کی پیروی کر رہا ہے۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بحیرہ احمر کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھا جانا چاہیے اور ہم کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
روس کی وزارت خارجہ نے مغرب کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا: "یمن پر امریکی حملے خطے میں کشیدگی کے بہانے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسخ کرنے اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل پامالی کی ایک اور مثال ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی بحیرہ احمر میں موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ہم بحیرہ احمر کے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اس سے عالمی تجارت پر منفی اثر پڑے گا۔ بحیرہ احمر ایک اہم ٹرانزٹ علاقہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور خطے کی سلامتی کو برقرار رکھنے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں گے۔ ہم بحیرہ احمر میں صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
مغربی جارحیت کے خلاف یمنی مزاحمت کا منہ توڑ جواب
یمن پر حملے میں امریکی اور برطانوی جارحوں کا سب سے اہم چیلنج بحیرہ احمر میں یمنی قومی فوج کے حملوں کو روکنے اور جنگ کے دائرہ کار کو بحیرہ عرب کے دوسرے حصوں تک پھیلانے سے روکنے کے لیے توازن کی منزل تک پہنچنا ہے۔
جمعے کو صبح سویرے ہونے والے حملے سے قبل صنعاء نے واشنگٹن لندن کی جارحیت کا قطعی جواب دینے کا اعلان کیا تھا۔ نیز یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی فضا کو امریکی طیاروں کی پرواز کے لیے کھول دیا تو یہ اقدام یمن کے خلاف اعلان جنگ ہوگا۔ یمن پر امریکی اور برطانوی اتحاد کے حملے کے چند منٹ بعد ہی اس ملک کی مسلح افواج نے بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت اور مغربی ممالک کے جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا۔ بعض غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں میں سے ایک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
یمنی مزاحمت ہر قسم کے بیلسٹک کروز میزائلوں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے آپریشنل ڈرونز سے لیس ہے جو کم از کم خلیج فارس کے علاقے، مشرقِی عرب اور ہارن آف افریقہ میں تمام امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی اتحاد میں منامہ کی شمولیت کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ انصار اللہ بحرین میں امریکی فائفتھ فلیٹ کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنائے۔
غور طلب ہے کہ صیہونی حکومت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دفاعی نظام یمن پر مغربی ممالک کے حملے کے چند منٹ بعد فعال کر دیا گیا ہے۔
صنعاء کی طرف سے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کو چوکنا کر دیا گیا اور وہ تنازعہ کے فریقوں سے رابطے سے گریز کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے دائرہ کار کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔
نتیخہ
یمن کی قومی فوج سے وابستہ فوجی اہداف پر امریکی اتحاد کی طرف سے میزائل حملوں کی پہلی لہر کے خاتمے کے بعد؛ صنعا نے اعلان کیا کہ اس ملک پر حالیہ امریکی اور برطانوی حملے سے غزہ کی مزاحمت کی حمایت بند نہیں ہو گی۔ یمنی مزاحمت نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان پر ایٹمی حملہ کیا جائے تو بھی وہ غزہ جنگ کے خاتمے تک اسرائیلی جہازوں کا راستہ روکے رکھے گی۔ یمن میں فوجی اہداف پر حملے کے ساتھ ہی، واشنگٹن نے ثالثی چینلز کے ذریعے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اس ملک کا یمن کے ساتھ کشیدگی کے دائرہ کار کو بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ صرف بحیرہ احمر کے علاقے میں انصار اللہ کی کارروائیوں کو روکنا چاہتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک شمالی بحر ہند میں یمن کی غیر متناسب قوتوں سے لڑنے کی دشواریوں اور عالمی تجارت کے لیے اس جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کے خطرات سے آگاہ ہیں۔ یمن پر امریکی اتحاد کے حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں 2.5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ واشنگٹن یمن میں فوجی اہداف پر حملے کر کے غزہ کی پٹی کے لیے عرب ملک کی حمایت کو روکنا چاہتا ہے لیکن یمن کی مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ صہیونی فوج کے مکمل انخلاء تک تل ابیب اور مغربی ممالک کے مفادات کے خلاف بحیرہ احمر، باب المندب آبنائے اور خلیج عدن میں کارروائیاں نہیں رکیں گی۔