90 کی دہائی کے آخر میں قدس فورس کے سابق کمانڈر کو حزب اللہ کے ساتھ مل کر لبنان میں حماس کی جلاوطن فورسز کو ہتھیار بنانے اور اسرائیلی دشمن سے لڑنے کے لیے ٹریننگ دینے کا موقع ملا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ کی پٹی میں مزاحمتی گروہوں کے طاقت پکڑنے سے پہلے اس علاقے اور مغربی کنارے کے عوام کو پہلے انتفاضہ کے دوران صرف "پتھروں" اور کم ترین جنگی وسائل سے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس وقت جدید اسرائیلی فوج کو کم جنگی خرچے اورہلکی مزاحمت کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں گھسنے اور مقامی باشندوں پر دباؤ ڈالنے کی طاقت حاصل تھی کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ دیں یا تل ابیب کی مرضی کے تابع ہو جائیں۔ تاہم دوسرے انتفاضہ کے بعد میدان جنگ میں تبدیلی آنے کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی صیہونی رجیم کی جنگی کمزوری کا آغاز ہوا۔ 

 90 کی دہائی کے آخر میں قدس فورس کے سابق کمانڈر کو حزب اللہ کے ساتھ مل کر لبنان میں حماس کی جلاوطن فورسز کو ہتھیار بنانے اور اسرائیلی دشمن سے لڑنے کے لیے ٹریننگ دینے کا موقع ملا۔ آج غزہ کی مزاحمت کے لیے تہران کی فوجی مدد کے آغاز کو دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد فلسطینی گروہوں نے ہر قسم کے میزائلوں، ہر قسم کے انٹیلی جنس اور جارحانہ ڈرونز اوراینٹی آرمر ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی دفاعی صلاحیت حاصل کر لی ہے تا کہ غزہ میں اسرائیلی جنگی مشین کو تباہ کر سکیں۔

اس بنا پر اس یاد داشت میں ہم مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی محور کی طاقت کے فروغ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

شہید سلیمانی نے غزہ کی ڈیٹرنس پاور کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا

شہید سلیمانی؛ فلسطینی مزاحمت کو اسلحے اورمالی مدد کی فراہمی میں تیزی لانے والی شخصیت۔

غزہ کی پٹی سے اسرائیلی قابض فوج کے انخلاء کے بعد اس فلسطینی علاقے کا کنٹرول اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے حوالے کر دیا گیا۔ اگرچہ تہران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد فلسطینی گروہوں کو مادی اور معنوی مدد فراہم کرنا شروع کی تھی، لیکن اس کا نقطہ آغاز اوسلو معاہدے کے بعد دیکھا جا سکتا ہے، یعنی مزاحمت کی نئی نسل کے میدان عمل میں آنے اور صیہونی رجیم کے خلاف مسلحانہ جدوجہد کے جوازکے بعد ہی مدد کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 

ایران اور حماس کے درمیان تعلقات میں پیشرفت کا نقطہ آغاز تہران کانفرنس (1990-1991) میں اس فلسطینی گروپ کے اعلیٰ سطحی رہنماؤں کی موجودگی تھی۔  تعلقات کے اس اسٹریٹجک قیام کے صرف ایک سال بعد صیہونی حکومت کے اس وقت کے وزیراعظم اسحاق رابن نے انتفاضہ کے دوران اس مزاحمتی گروہ کے نمایاں کردار کے باعث حماس کی تقریباً چار سو بیس اہم شخصیات کو ہمسایہ ملک لبنان میں جلاوطن کر دیا۔ 

اس دوران  پاسداران انقلاب کی قدس فورس اور لبنانی مجاہدین نے حماس کے مجاہدین کو اسلحہ سازی، جنگی حکمت عملی، خفیہ سرنگیں بنانے، شہری جنگ وغیرہ میں تربیت دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مزاحمتی محور سے متعلق کچھ شخصیات اور اسرائیلی افسران کا خیال ہے کہ شہید سلیمانی نے کئی بار خفیہ طور پر غزہ کی پٹی کا سفر کیا اور اسرائیلی فوج کے ممکنہ حملوں کے خلاف غزہ کے دفاع کو مضبوط بنانے میں ذاتی طور پر کردار ادا کیا۔

 غزہ کی میزائل پاور شہید سلیمانی کی لازوال میراث ہے

فلسطینی علاقے صیہونی حکومت کی ملٹری انٹیلی جنس کے مکمل محاصرے  میں آنے کی وجہ سے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے اندر براہ راست ہتھیاروں کی خریداری کے لئے رابطہ لائن قائم کرنا ممکن نہیں تھا۔ لہذا دو اہم حکمت عملیوں’’اسلحے کی اسمگلنگ کے خفیہ نیٹ ورک کا قیام‘‘ اور ’’ہر قسم کے دفاعی ہتھیاروں کی کم سے کم سہولتوں کے ساتھ تیاری‘‘  کو مزاحمتی ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔  

مزاحمتی ہتھیاروں کی منتقلی کا نیٹ ورک تین راستوں؛ سوڈان، مصر اور لیبیا سے فلسطینی مجاہدین  کو ہتھیار منتقل کرتا تھا۔ اس بارے میں مصر کی اینٹلی جنس سروس نے لیبیا سے غزہ کی پٹی میں 138 گراڈ راکٹ منتقل کرنے کی اطلاع دی۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق قدس فورس اور سپاہ پاسداران انقلاب بعض اوقات راکٹ سازی کا سامان غزہ کی سرحد سے متصل پانیوں کے قریب چھوڑ دیتی  تاکہ فلسطینی مجاہدین ان پیکجوں کو ساحل کے قریب سے اٹھا سکیں۔ مثال کے طور پر لبنان اور ایران میں حماس اور اسلامی جہاد کے کچھ فوجی کمانڈروں کو سادہ اور شہری مواد جیسے پائپ، چینی وغیرہ سے مختصر فاصلے کے "القسام" راکٹ بنانے کی تربیت دی گئی۔

 آج عزالدین القسام اورسرایا القدس بریگیڈز قسام کلاس  کے میزائل جیسے "شہاب" اور "القاصف" ڈرون یا  "فجر"، "بدر"، "قاسم"، "گراڈ" "براق" وغیرہ  سے لیس ہیں۔ جو اسرائیل کے دفاعی نظام "آئرن ڈوم" کو چیلنج کرنے کے ساتھ اسے انٹرسیپٹ کر سکتے ہیں۔ مزاحمتی میزائلوں کی رینج کا تخمینہ 3 سے 250 کلومیٹر کے درمیان ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے مختلف حصوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 4 سے 5 ہزار کے درمیان فلسطینی راکٹ مقبوضہ علاقوں کی جانب فائر کیے جا چکے ہیں۔

"سلیمانی" کی میراث صیہونی رجیم کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے

فلسطینی گروہوں کو بااختیار بنانے کی راہ میں شہید سلیمانی کی سب سے اہم کامیابی اور میراث ایک نیٹ ورک کی تشکیل اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی مزاحمت کو مختلف طریقوں سے مسلح کرنے کا طریقہ کار ہے۔ جب کہ تل ابیب اور ایران کے کچھ علاقائی حریفوں نے "مذہبی بغاوت" یا "شام میں خانہ جنگی" کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ تہران کے تزویراتی تعلقات کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن شہید سلیمانی نے کبھی بھی فلسطینی مزاحمت کو فوجی اورمالی امداد فراہمی کا سلسلیہ رکنے نہیں دیا۔ شہید سلیمانی کے لیے مسئلہ فلسطین کبھی بھی محض "قومی مفادات" کے نظریے سے وابستہ نہیں تھا بلکہ انھوں نے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کو "مذہبی فریضے" کے طور پر اپنایا۔ آج جنرل سلیمانی کی دور اندیشی کا نتیجہ طوفان الاقصیٰ جنگ کے دوران واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

طوفان الاقصیٰ آپریشن کی کامیابی شہید سلیمانی کی برسوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے

حماس کے مجاہدین سیف القدس جنگ کے بعد 7 اکتوبر کے "طے شدہ" دن  کے لئے ہتھیاروں کی صلاحیت کوبڑھانے کے ساتھ انہیں غزہ کی پٹی میں منتقل کرکے مکمل طور پر تیار ہوچکے تھے۔

 آج مزاحمتی فورسز مقبوضہ علاقوں کے اندر 24 کلومیٹر تک گھس کر غاصب رجیم کے فوجی اورسیکیورٹی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے ساتھ اس پرایک طویل جنگ مسلط کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ غاصب رجیم کے معاشی اداروں کے اندازوں کے مطابق غزہ جنگ میں اسرائیل کا جنگی نقصان او لاگت پچاس ارب ڈالر کی سرحد عبور کر چکی ہے۔ نیز محور مقاومت کی "متحدہ محاذ" پالیسی کے سبب "ایلات" بندرگاہ پر یمنی قومی فوج کے حملے اور "شمالی محاذ" میں لبنان کی حزب اللہ کی مناسب کارکردگی نے مقبوضہ علاقوں میں معاشی زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ آج ہم " طوفان الاقصیٰ "  آپریشن  اور مختلف محاذوں پر مزاحمتی محور کی شاندار کارکردگی کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے شہید سلیمانی کی حکمت عملی کی برکتوں اور ثمرات میں سے قرار دے سکتے ہیں۔

نتیجہ

شہید سلیمانی کا مطمح نظر در اصل غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں موجود تمام فلسطینی گروہوں کی بلاتفریق مدد کرنا تھا، یعنی ظاہری، نسلی اور نظریے کے فرق کو خاطر میں لائے بغیرتمام مزاحمتی گروہوں کی جامع اور مضبوط  حمایت شہید کی ہمہ جانبہ جدوجہد کا نقطہ آغاز تھی۔ شہید سلیمانی نے 1990 -1991 کی تہران کانفرنس سے لے کر غزہ کی 22 روزہ جنگ تک، ہمیشہ فلسطینی گروپوں کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرنے اور ان کے درمیان ایک "مشترکہ آپریشن روم" قائم کی کوشش کی تاکہ صیہونی دشمن کو شکست دینے کے لیے ضروری بنیادیں فراہم کی جاسکیں۔ انہی کوششوں اور حمایتوں کی وجہ سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو بتدریج شامات کے علاقے میں ایک موئثر عنصر کے طور پر پہچانا جانے لگا۔

اس عظیم کمانڈر کو اس راہ پر اس حد تک پختہ یقین تھا کہ قدس فورس کے مالیاتی افسر کو لکھے گئے خط میں انہوں نے درخواست کی کہ اسرائیل کے خلاف "فلسطینی بھائیوں" کی حتمی فتح تک ان کی تنخواہ مسئلہ فلسطین کے لیے مختص کی جائے۔ شہید سلیمانی کی فلسطینی گروہوں کی مخلصانہ اور مسلسل امداد نے انہیں آہستہ آہستہ دفاعی ہتھیارسازی میں خود کفیل بنا دیا تاکہ اپنی مادر وطن اور مسلمانوں کے قبلہ اول کا دفاع کر سکیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس عظیم سپوت کی بیت المقدس کے دفاع کے لیے برسوں کی جدوجہد اور کوششوں نے رہبر معظم انقلاب کو ان کی شہادت کے چند گھنٹے بعد فلسطینی مزاحمت کو مسلح کرنے  میں ان کے اہم کردار اور اس سلسلے میں فلسطینی رہنماؤں کی گواہی کے بارے میں بات کرنے پر مجبور کر دیا۔