حماس کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ روبزوال صہیونی حکومت امریکی مدد کے سہارے سانس لے رہی ہے۔ فلسطین کا مستقبل مقاومت کے ہاتھ میں ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی_ین الاقوامی ڈیسک؛ 
صہیونی حکومت کے خلاف فسلطینی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے طوفان الاقصی کے سلسلے میں کاروائیاں جاری ہیں۔ اس آپریشن کے آغاز سے ہی پوری دنیا کی نظریں فلسطین اور بیت المقدس پر ہیں۔ امریکہ نے شروع سے ہی صہیونی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے غزہ میں سویلین پر حملوں کو جائز قرار دیا ہے۔

فلسطین کی تازہ ترین صورتحال اور طوفان الاقصی کے بعد سامنے آنے والے منظرنامے پر گفتگو کرنے کے لئے مہر نیوز نے فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے اعلی رہنما علی برکہ سے گفتگو کی ہے جو قارئین کیی خدمت کی پیش کی جاتی ہے۔

مہر نیوز: امریکی صدر نے مقبوضہ علاقوں میں کیا کیا؟ طوفان الاقصی کے ابتدائی مرحلے میں ہی امریکہ کو صہیونی حکومت کی حمایت کی ضرورت کیوں پڑی؟

امریکی صدر جوبائڈن نے تل ابیب کا دورہ کرکے غزہ پر صہیونی وحشیانہ حملوں کی حمایت کی۔ امریکی صدر نے نتن یاہو اور غاصب صہیونی فورسز کا حوصلہ بڑھانے کے لئے غیر معمولی دورہ کیا کیونکہ اسرائیل کی فوج نے 7 اکتوبر کو کئی سو افراد پر مشتمل محدود فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں بڑی شکست کھائی تھی۔
آج امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی صہیونی غاصب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مقاومت کے مقابلے میں اس صہیونی فوج نے شکست کھائی جس کی تعریف میں مغربی میڈیا زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ جس طرح 40 سال پہلے شاہ ایران کی حکومت سرنگوں ہونے سے صہیونی حکومت فلسطین تک محدود ہوگئی تھی آج خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات خطرے میں ہیں۔

امریکی حکام کو خوف ہے کہ مقاومت کے مقابلے میں صہیونی حکومت شکست سے دوچار ہوسکتی ہے لہذا باری باری دورہ کررہے ہیں۔ غزہ کی جنگ کی قیادت امریکہ نے خود سنبھالی ہے۔ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرکے صحرائے سینا یا اردن کے کسی مقام پر منتقل کرنے کے لئے عرب ممالک پر دباو لگارہے ہیں۔ امریکہ سازش کے تحت مشرق وسطی کی جانب سے طیارہ بردار بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ صہیونی حکومت امریکی شہہ پر غزہ میں ہسپتالوں، عبادتگاہوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کررہی ہے۔ اب تک شہید ہونے والوں میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔

امریکہ فلسطین کے حوالے سے دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یوکرائن میں قابض کے خلاف اقدامات کے نام سے یوکرائن کی حکومت کی حمایت کرتا ہے جبکہ فلسطین میں غاصب صہیونی حکومت کے خلاف اقدامات کے بجائے حمایت کررہا ہے۔ ہم فلسطین میں ہونے والے نقصانات کا اصل اور حقیقی ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں۔

مہر نیوز: امریکہ کی جانب سے صہیونی حکومت کی حمایت کی نہ فقط کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ صہیونی حکومت کی حمایت میں امریکہ نے تمام عقلی اور عرفی حدود کو پار کیا ہے۔ امریکی حمایت میں اتنی شدت کی کیا وجہ ہے؟

چنانچہ پہلے بھی بتادیا کہ صہیونی حکومت خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اسرائیل امریکی اڈا ہے۔ اس اڈے کی بنیادیں ہلنا شروع ہوگئی ہیں۔ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں شدید دھچکا لگ گیا ہے۔

عرب حکومتیں عوام کے مقابلے شدید دباو محسوس کررہی ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد حالات کا رخ یک دم بدل گیا ہے اور خطے کے ممالک نے دیکھ لیا کہ صہیونی حکومت اپنا دفاع کرنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔

ہم عرب ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ صہیونی حکومت کے ساتھ روابط کو ختم کردیں اور فلسطین اور وہاں کے عوام پر اعتماد کریں کیونکہ مستقبل فلسطینی عوام کا ہے۔ غاصب صہیونی حکومت زوال پذیر ہے اور اس وقت امریکی مدد سے آخری سانسیں لے رہی ہے۔

مہر نیوز: جوبائیڈن کی تل ابیب سے واپسی کے بعد میڈیا نے ان کے حوالے سے خبر دی کہ امریکہ نے حزب اللہ کے جنگ میں داخل ہونے کی صورت میں مداخلت کے بارے میں اسرائیل کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ کیا امریکہ کا یہ اقدام عقب نشینی ہے یا صہیونی حکام مخصوصا نتن یاہو سے ناراضگی کا اظہار ہے؟

امریکہ خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کے حوالے سے بہت پریشان ہے کیونکہ اس جنگ میں مقاومتی تنظیمیں حصہ لیں گی اسی لئے جوبائیڈن نے واشنگٹن پہنچنے کے بعد عقب نشینی اختیار کی اور کہا کہ حزب اللہ کی جنگ میں شرکت کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ در حقیقت جوبائیڈن حزب اللہ اور مقاومت کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ امریکہ جنگ میں توسیع کا حامی نہیں ہے۔ البتہ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے کیونکہ غزہ پر حملہ در حقیقت پوری مقاومت پر حملہ ہے۔ فلسطین پر حملہ پوری عرب دنیا اور امت مسلمہ پر حملہ ہے اسی لئے مقاومت نے کئی محاذوں پر جنگ چھیڑ دی ہے۔

طوفان الاقصی کے اگلے روز 8 اکتوبر کو لبنان کی مقاومت نے جنگ میں حصہ لینا شروع کیا اور ابھی تک جھڑہیں ہورہی ہیں۔ عراق اور شام میں مجاہدین نے امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور عین الاسد سمیت کئی امریکی فوجی اڈوں پر حملے کئے۔ یمن کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں پر دور مار میزائل فائر جس کو امریکی بحری جہاز نے مارگرایا۔

مہر نیوز: امریکی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ صہیونی حکومت کو بچانے کے لئے امریکہ نے تمام قانوںی، اخلاقی اور سیاسی اقدار کو پاوں تلے روند ڈالا ہے۔ ان سب کے باوجود غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر حملے کی جوبائیڈن کی جانب سے حمایت خلاف توقع تھی۔ کیا جوبائیڈن ان بیانات سے بھی عقب نشینی اختیار کریں گے؟ ان غلطیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر امریکی وقار پر کتنا اثر پڑے گا؟

امریکی حکومت فلسطین کے خلاف اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر شریک ہے۔ غزہ کا محاصرہ امریکی حمایت کے تحت ہورہا ہے۔ فلسطینی عوام کو ملک سے بے دخل کرنے کی کوشش کا مقصد حماس کو دیوار سے لگانا ہے۔ امریکہ خطے اور پوری دنیا کا ناسور ہے جو صہیونی حکومت کی حمایت کررہا ہے۔ اگر امریکہ کی جانب سے صہیونی حکومت کی دفاعی، مالی اور سیاسی حمایت نہ ہوتی تو اسرائیل کب سے ختم ہوچکا ہوتا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے فلسطینی قوم، عرب عوام اور مسلمانوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔

مہر نیوز: مصر سے غزہ میں امدادی سامان بھیجے جانے کی متضاد خبریں موصول ہورہی ہیں۔ کیا جوبائیڈن نتن یاہو کو اس اقدام پر مجبور کرنے میں شکست کھاچکے ہیں؟ یا جوبائیڈن جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ عرب ممالک اور عالمی برادری کو دھوکہ دے سکیں؟

امریکہ رفح بارڈر سے تھوڑی بہت امداد بھیجنے کی کوشش کررہا ہے۔ معمولا اس کے طرح امداد کی اچھی طرح نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ امدادی سامان کے ساتھ امریکی اور صہیونی جاسوس بھی گھس آسکتے ہیں یا فلسطینی عوام کو غزہ کے جنوبی علاقوں میں امدادی سامان کے بہانے محصور کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔

ظاہری بات ہے کہ ہم امداد کو لینے سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ فسلطینی امداد کے محتاج ہیں لیکن یہ امدادی پروگرام صہیونی حکومت اور مصر کے باہمی ہماہنگی کے نتیجے میں ہورہا ہے غزہ یا حماس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہم اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ غزہ کی اولین اور بنیادی ضرورت غذا اور پانی نہیں بلکہ حملوں کی روک تھام اور جنگ بندی ہے۔ صہیونیوں نے غزہ کی مساجد، کلیساوں اور ہسپتالوں تک کو نہیں بخشا ہے لیکن اس کے باوجود یورپی ممالک صہیونی حکومت کے حامی ہیں۔ فرانس نے فلسطینی مجاہدین کو جرمنی کے نازیوں سے تشبیہ دی ہے۔

جرمن نازیوں کے خلاف فرانسوی عوام کی مزاحمت کی حمایت کرنے والوں کو چاہئے کہ دور کے نازی صہیونیوں کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کی بھی حمایت کریں۔

لیبلز