13 نومبر، 2025، 6:24 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں؛ فاشر سے کردفان تک خونریز جنگ، ملک تقسیم کے دہانے پر

سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں؛ فاشر سے کردفان تک خونریز جنگ، ملک تقسیم کے دہانے پر

فاشر پر باغیوں کا قبضہ، لاکھوں افراد کی بے دخلی اور فوجی پسپائی نے سوڈان کا سیاسی نقشہ بدل دیا، ماہرین کے مطابق یہ بحران اب محض خانہ جنگی نہیں بلکہ جغرافیائی سیاست کی نئی جنگ بن چکا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سوڈان میں فوج اور نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جاری خانہ جنگی ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ دارفور کے شمال میں واقع شہر فاشر پر RSF کے قبضے کے بعد ملک کے مستقبل کے حوالے سے سنگین خدشات نے جنم لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، فاشر کی فتح جنرل محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی کے لیے ایک بڑی عسکری کامیابی ہے، جبکہ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج کو پے در پے پسپائیوں کا سامنا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، جنگ کے نتیجے میں چودہ ملین سے زائد افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہوچکے ہیں، جو رواں صدی کا سب سے بڑا انسانی المیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران صرف داخلی اقتدار کی کشمکش نہیں رہا، بلکہ علاقائی طاقتوں اور عالمی مفادات کے تصادم کا مظہر بن چکا ہے، جو پورے افریقہ کے استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔

سوڈان کے بحران کی تاریخی جڑیں

سوڈان افریقہ کے ان پیچیدہ ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ نوآبادیاتی دور اور اس سے بھی پہلے کے ادوار میں تشکیل پایا۔ 1821ء میں محمد علی پاشا کی افواج نے مقامی ریاستوں جیسے فنِج اور سنّار کی بادشاہتوں کو ختم کرکے ایک مرکزی حکومت کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں دورِ مَہدیہ (1885 تا 1899) میں ایک مختصر کوشش کی گئی کہ حکومت کو مقامی بنیادوں پر استوار کیا جائے، مگر مہدی تحریک کے رہنما محمد احمد کی وفات کے بعد مصری-برطانوی قبضہ (1899 تا 1956) کا آغاز ہوا۔

اسی دور میں شمالی سوڈان کو جنوبی سوڈان جس میں عیسائی و افریقی نسل کے لوگ بستے تھے، سے الگ کر دیا گیا۔ یہی تقسیم بعد میں نسلی اور علاقائی تنازعات کی جڑ بنی۔ 1956ء میں آزادی کے بعد سوڈان میں بار بار فوجی بغاوتوں کی وجہ سے غیر مستحکم حکومتیں وجود میں آتی رہیں۔ جنوبی علاقوں میں بغاوتیں 1955ء میں شروع ہوئیں اور طویل خانہ جنگیوں (1955–1972 اور 1983–2005) نے ملک کو تباہ کر دیا۔ آخرکار 2011ء میں جنوبی سوڈان کے علیحدہ ہونے سے ملک نے اپنے 75 فیصد تیل کے وسائل کھو دیے۔ بعد ازاں دارفور (2003)، کردفان اور نیلِ آبی (2011–2020) کے علاقوں میں بھی بغاوتیں بھڑک اٹھیں۔

فاشر پر قبضہ اور سوڈان کی ممکنہ تقسیم

فاشر شہر پر نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز کا قبضہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے نتیجے میں تقریباً 25 فیصد سوڈان کا رقبہ (دارفور) ان کے زیرِ اثر آگیا ہے۔ یہ کامیابی، جس کے دوران عام شہریوں کے قتلِ عام کی اطلاعات بھی ہیں، دراصل اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ سوڈانی فوج نے اپنی توجہ دارالحکومت خرطوم اور دیگر مرکزی علاقوں پر مرکوز رکھی۔ اگرچہ فوج نے مارچ 2025ء میں خرطوم دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے کر سیاسی اعتبار سے کچھ مضبوطی حاصل کی، مگر اس کے نتیجے میں ریپڈ سپورٹ فورسز کو موقع ملا کہ وہ اپنی نسلی حمایت، بیرونی امداد اور جبل عامر کی سونے کی کانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے سہارے دارفور میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لے۔

یہ پیش رفت دو پہلو رکھتی ہے:
ایک طرف ریپڈ سپورٹ فورسز اب ملک کے اندر ایک متوازی حکومت کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ وہ امن و اتحاد کی حکومت کے نام سے ایک انتظامی ڈھانچہ بنا رہی ہیں، پاسپورٹ جاری کرنے، شناختی نظام قائم کرنے اور اپنی کرنسی چھاپنے کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور نسلی صفایا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ RSF کو بیرونی طاقتوں کی حمایت بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔

اقتصادی تباہی

جنگ نے سوڈان کی معیشت کو تقریباً مفلوج کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، کل مالی نقصان تقریباً 200 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ صنعتی پیداوار میں 70 فیصد، خدمات کے شعبے میں 49 فیصد اور زرعی شعبے میں 21 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

اب تک 8 ملین افراد ملک کے اندر بے گھر جبکہ 2 ملین سے زائد افراد ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کرچکے ہیں۔ ہزاروں افراد کی ہلاکت نے سوڈان کے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، اور ملک اب مکمل طور پر انسانی، سیاسی اور اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ تقریباً 4 کروڑ 50 لاکھ آبادی والے ملک سوڈان کے پاس قدرتی اور زرعی وسائل کی ایک بڑی دولت موجود ہے۔ یہاں سونا، چاندی، کروم، پلاٹینم، تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ 8 کروڑ 40 لاکھ ہیکٹر زرخیز زمین اور جانوروں کی بڑی تعداد اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس سب کے باوجود، وسائل کی مرکز میں غیرمنصفانہ تقسیم نے ملک کے دورافتادہ علاقوں کو پسماندہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں تشدد اور محرومی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی ماحول میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے دارفور کی قبائلی ملیشیاؤں کی مدد سے قابلِ ذکر اقتصادی اور عسکری طاقت حاصل کر لی ہے۔

جنگ کے آغاز میں RSF نے خرطوم کے کچھ حصے اور اہم تنصیبات پر قبضہ کرلیا، مگر سوڈانی فوج نے فضائی برتری کے ذریعے مرکز کو دوبارہ حاصل کر لیا۔ اس کے باوجود RSF نے بیرونی حمایت اور محاصرے کی حکمتِ عملی کے ذریعے دارفور پر کنٹرول قائم کر لیا۔ یہ صورتِ حال سوڈان کے دیرینہ مرکز اور دیہی علاقوں کے تضاد کی واضح مثال ہے: فوج دارالحکومت اور کلیدی علاقوں کے دفاع کو ترجیح دیتی ہے، جبکہ RSF دیہی کو مرکز کو کمزور کرنے کے لیے متحرک کرتی ہے۔

سوڈان کے بحران کے ممکنہ منظرنامے

تازہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب جنگ کا مرکز کُردفان صوبہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ علاقہ فوج اور RSF دونوں کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے، مگر دونوں فریقوں کے اہداف مختلف ہیں۔ فوج کے نزدیک کُردفان خرطوم کا دفاعی حصار اور ملک کی سیاسی و عسکری ساخت کا مرکز ہے۔ اگر یہ علاقہ ہاتھ سے نکل جائے تو طاقت کا توازن مکمل طور پر حمیدتی کے حق میں جاسکتا ہے۔ اسی لیے فوج نے اس خطے میں نئے یونٹوں کی تعیناتی، فضائی قوت کے استعمال اور مکمل دفاع کا منصوبہ بنایا ہے۔

دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورسز کے لیے کُردفان پر قبضہ ایک اسٹریٹجک موقع ہے، جس کے ذریعے وہ مغربی سوڈان پر اپنی گرفت مضبوط کر کے دارفور میں حاصل کردہ کامیابیوں کو مستحکم کر سکتی ہیں۔ اگر حمیدتی اس محاذ پر کامیاب ہوتا ہے تو یہ پورے سوڈان کے مزید حصوں پر قبضے کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

پہلا منظرنامہ

تجزیہ کاروں کے مطابق، سب سے زیادہ ممکنہ منظرنامہ یہ ہے کہ فوج کُردفان پر کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اگرچہ RSF کو دارفور میں مقامی کامیابیاں ملی ہیں، لیکن وہ  کردفان کے مرکز الابیض کا طویل اور مؤثر محاصرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ علاقے کا کھلا جغرافیہ، طویل سپلائی لائنیں، اور فضائی حملوں کے خطرات RSF کی پیش قدمی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے برعکس، فوج کے پاس متعدد ہوائی اڈے اور محفوظ رابطہ لائنیں موجود ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جنگ ایک جمود کی کیفیت اختیار کرے گی۔ فوج ملک کے مشرقی و مرکزی حصوں پر قابض رہے گی، جبکہ حمیدتی کی فورسز دارفور میں اپنی گرفت برقرار رکھیں گی۔ یہ صورت حال لیبیا کے مشرقی ماڈل سے مشابہ ہوگی، جہاں خلیفہ حفتر اور طرابلس حکومت کے درمیان ملک دو متوازی حکومتوں میں منقسم ہو گیا۔

دوسرا منظرنامہ

RSF کے لیے کُردفان پر مکمل قبضہ حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لیے انہیں بڑے پیمانے پر افرادی قوت، بھاری جانی نقصان، اور دارفور کے خطرے کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر حمیدتی اس حملے کا فیصلہ کرتا ہے تو فوج بھی شدید جوابی کارروائی پر مجبور ہوگی، کیونکہ کُردفان کا سقوط دراصل نَیل کی سمت راستہ کھولنے اور خرطوم کے لئے براہِ راست خطرہ بننے کے مترادف ہوگا۔

تیسرا منظرنامہ

یہ امکان کم ہے کہ فوج کُردفان کی جنگ سے پہلے دارفور کو واپس لے سکے۔ افرادی قوت کی کمی، لاجسٹک دشواریاں اور طویل رسد کی لائنیں فوج کو محدود کر رہی ہیں۔ اس لیے فوج غالباً فی الحال کُردفان کے دفاع پر توجہ دے گی اور مستقبل میں دارفور کی جانب پیش قدمی کے لیے اسے ایک اسٹریٹجک بیس کے طور پر استعمال کرے گی۔

حاصل سخن

مجموعی طور پر، سوڈان میں طاقت کا توازن ایک فوجی جمود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فوج کے پاس مرکزی شہروں اور دارالحکومت پر کنٹرول ہے، جبکہ ریپڈ سپورٹ فورسز نے مغربی علاقوں میں ایک مضبوط علاقائی و نسلی بنیاد قائم کر لی ہے۔ اگر سیاسی ڈھانچے میں اصلاحات نہ کی گئیں اور طاقت و وسائل کی منصفانہ تقسیم عمل میں نہ آئی، تو سوڈان غیررسمی تقسیم کی طرف جا سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں دو متوازی حکومتیں اور دو عسکری قوتیں ہوں۔ یہ بحران اب محض ایک خانہ جنگی نہیں بلکہ سوڈان کے تاریخی، سیاسی اور معاشی انہدام کا مظہر بن چکا ہے۔ مرکزیت، نسلی امتیاز، اور طاقت کے ارتکاز نے ایسے گروہوں کو جنم دیا جیسے RSF، جو اب ایک نیم ریاستی کردار اختیار کرچکی ہیں۔ دارفور پر قبضہ اور کُردفان کی جانب ممکنہ پیشقدمی اس بات کا عندیہ ہیں کہ سوڈان تیزی سے لیبیا جیسے منظرنامے کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں ملک عملی طور پر دو عسکری مراکزِ اقتدار میں تقسیم ہوچکا ہے۔

News ID 1936469

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha